Monday 26 October 2015

▪فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجماعت کاپس منظراورتعارف▪


فرقۂ ناجیہ اہل سنت والجماعت کاپس منظراورتعارف

نبی کریم  کا ارشاد گرامی ہے: ’’تفترق امتی علی ثلث و سبعین فرقۃ ۔ میری امت تہتر فرقوں میں تقسیم ہوگی‘‘۔

ترمذی:
۲/۹۲)

ایک دوسری جگہ روایت میں آتا ہے: ’’کلھم فی النار الا ملۃ واحدۃ۔ وہ تمام فرقے جہنم میں جائیں گے ایک فرقہ کے سواء‘‘۔

(ترمذی:
۲/۹۲۔ و کذا فی المستدرک)

ایک اور روایت میں اس فرقہ ناجی کے متعلق آپ ﷺنے یہ بیان فرمایا: ’’ما انا علیہ و اصحابی...۔ کہ جس پر میں اور میرے صحابہؓ ہیں‘‘۔

(ترمذی)

اس فرقہ ناجی کو اہل سنت و الجماعت کہا جاتا ہے۔

اھل:  یہاں پر اہل سے مراد اتباع، مقلدین اشخاص ہیں۔

سنت:  اس کا معنیٰ تو راستہ کے آتے ہیں اور سنت طرزِ عمل کو بھی کہتے ہیں جیسے کہ قرآن مجید میں آتا ہے: ’’.... وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللہ تَحْوِيلًا .... اور اللہ کی سنت میں تم تبدیلی نہیں پاؤگے‘‘۔

اور دینی اصطلاح میں لفظِ سنت رسول اللہ  کی طرزِ زندگی اور طریقِ عمل کو کہتے ہیں،

جماعت:        اس کے معنیٰ گروہ کے ہیں، یہاں پر جماعت سے مراد صحابہؓ ہیں۔

اہل سنت و الجماعت کا مطلب اور مفہوم کے بارے میں علامہ سید سلیمان ندوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اس فرقہ کا اطلاق ان اشخاص پر ہوتا ہے جن کے اعتقادات، اعمال اور مسائل کا محور نبی کریم  کی سنتِ صحیحہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اثر مبارک ہے، یا یوں کہئے کہ جنہوں نے اپنے عقائد اور اصولِ حیات اور عبادات و اخلاق میں اس راہ کو پسند کیا جس پر آپﷺعمر بھر چلتے رہے اور آپﷺ کے بعد آپ کے صحابہؓ اس پر چل کر منزلِ مقصود کو پہنچے‘‘۔

(اہل سنت و الجماعت:
۱۰)

’’یوم تبیضُّ وجوہٌ ۔ قیامت کے دن بعض چہرے خوبصورت ہوں گے‘‘، اس کی تفسیر میں حضرت عبد اللہ بن عمرؓ اور حضرت ابوسعید خدریؓ جیسے صحابہ فرماتے ہیں اس سے مراد اہل سنت و الجماعت ہیں۔

(در المنثور:
۲/۶۳)

اور پھر اہل سنت و الجماعت اولاً نبی کریم  کو اپنا مقتدیٰ مانتے ہیں اور اس کے بعد آپﷺ نے خود ارشاد فرمایا تھا کہ ’’ما انا علیہ و اصحابی‘‘ تو صحابہؓ کو بھی معیارِ حق مانتے ہیں، خاص کر کے خلفاء راشدین جن کے بارے میں خود آپﷺ کا ارشاد گرامی موجود ہے۔

’’علیکم بسنتی و سنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین تمسکوا بھا و عضوا علیھا بالنواجذ ‘‘۔

(ابوادؤد:
۲/۲۷۹، ترمذی:۳۸۳، ابن ماجہ:۵، دارمی:۶/۲، مسند احمد:۴/۲۷)

ترجمہ: ’’میری سنت کو لازم پکڑو اور خلفاء راشدین کی سنت کو جو ہدایت یافتہ ہیں ان کو دانتوں سے مضبوطی سے پکڑ کر رکھو‘‘۔

اور پھر اس کے بعد اہل سنت و الجماعت ائمہ اربعہ یعنی امام ابوحنیفہ، امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ علیہم کو حق تسلیم کرتے ہوئے کسی ایک کی مسائل میں اتباع کو ضروری قرار دیتے ہیں، نیز اہل سنت و الجماعت کے نزدیک ادلہ شرعیہ چار ہیں، ان چاروں کو ہی ماننا ہے: (
۱)قرآن۔ (۲)حدیث۔ (۳)اجماعِ امت(جس پر اتفاق ہوچکا ہو)۔ (۴)قیاس(کہ بعض فقہی مسائل کے حل موجود نہیں ہیں تو جن کا حل موجود ہے اس کی علت دیکھ کر اس پر بھی وہی حکم لگادیتے ہیں)۔

علامہ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں

’’فان اھل السنۃ تتضمن النص و الجماعۃ تتضمن الاجماع فاھل السنۃ والجماعۃ ھم المتبعون للنص و الاجماع‘‘۔

(منہاج السنۃ:
۳/۲۸۲)

ترجمہ:   یعنی اہل سنت میں سنت سے مراد نص ہے، یعنی کتاب و سنت ہے اور جماعت سے مراد اجماع ہے، پس اہل سنت و الجماعت نص اور اجماع کی اتباع کرتے ہیں۔

ائمہ اربعہ کا اتفاق صحابہؓ کے اتفاق پر مبنی ہے اور ائمہ اربعہ کا اختلاف صحابہؓ کے اختلاف پر مبنی ہے، اور جن مسائل میں صحابہ اور ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ان سے اختلاف کرنا بھی اجماع سے نکلنا ہے اور جن مسائل میں ائمہ اربعہ میں اختلاف ہے ان میں کوئی نیا اختلاف پیدا کرنا بھی اجماع کے خلاف ہے اور جو ان سے خارج ہیں وہ اہل سنت و الجماعت میں سے نہیں ہیں۔

(عقد الجید)

اسی کو بعض روایات میں سوادِ اعظم کہا گیا ہے اور اسی سوادِ اعظم کی ہی اتباع کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ کی روایت ہے معلوم ہوتا ہے:

۱۔  عن ابن عمرؓ قال قال النبی  لا یجمع ھذہ الامۃ علی الضلالۃ ابداً و یدُ اللہ علی الجماعۃ فاتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار۔

(الحاکم فی المستدرک:
۱/۲۰۰)

ترجمہ:   حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور فرمایا اللہ کی مدد جماعت پر ہوتی ہے، لہٰذا تم امت کے سواد اعظم کا (یعنی بڑی جماعت کا) اتباع کرو اور جو اس سے الگ رہے گا الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

۲۔      حدثنا معتمر بن سلیمان قال قال ابوسفیان سلیمان بن سفیان المدنی عنر عمرو بن دینار عن ابن عمرؓ ان النبی  قال : لا یجمع اللہ امتی علی ضلالۃ ابدا و ید اللہ علی الجماعۃ ھکذا فاتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار ۔

(الحاکم فی المستدرک:
۱/۲۰۱)

ترجمہ:   حضرت ابن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعایٰ میری امت کو کبھی گمراہی پر جمع نہیں کرے گا اور اللہ کی مدد اسی جماعت پر آتی ہے، لہٰذا تم امت کے سواد اعظم (بڑی جماعت) کا اتباع کرو، جو اس سے الگ ہوگا اسے الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

۳۔   عن ابن عمرؓ قال قال رسول اللہ  لا یجمع ھذہ الامۃ او قال امتی علی الضلالۃ ابداً اتبعوا السواد الاعظم فانہ من شذ شذ فی النار۔

(المستدرک للحاکم:
۱/۲۰۱)

ترجمہحضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ  نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس امت کو یا یہ فرمایا کہ میری امت کو گمراہی پر کبھی جمع نہیں کریں گے اور تم سب سے بڑی جماعت (سواد اعظم) کی اتباع کرو، جو اس سے الگ ہوگا اسے الگ کرکے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔

۴۔      عن انس بن مالکؓ یقول سمعت رسول اللہ  یقول ان امتی لا تجتمع علی الضلالۃ فاذا رأیتم اختلافاً فعلیکم بالسواد الاعظم۔

(ابن ماجہ:
۲۸۲)

ترجمہ:   حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺکو فرماتے ہوئے سنا کہ میری امت گمراہی پر جمع نہیں ہوگی، جب تم اختلاف دیکھو تو اپنے آپ کو سواد اعظم کے ساتھ لازم کرلو۔

فرقہ ناجیہ کے بارے میں حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کا فرمان

اقول: الفرقۃ الناجیۃ ھم الاٰخذون فی العقیدۃ و العمل بما ظھر من الکتاب والسنۃ و جریٰ علیہ جمھور الصحابۃ و التابعین ..... الخ۔

(حجۃ اللہ البالغہ:
۱/۱۷۰)

ترجمہ:   میں کہتا ہوں کہ نجات حاصل کرنے والا فرقہ وہی ہے جو عقیدہ اور عمل دونوں میں اس چیز کو لیتا ہے جو کتاب اور سنت سے ظاہر ہو اور جمہور صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کا اس پر عمل ہو۔

و غیر الناجیۃ کل فرقۃ انحلت عقیدۃ خلاف عقیدۃ السلف او عملا دون اعمالھم ..... الخ۔

(حجۃ اللہ البالغہ:
۱/۱۷۰)

ترجمہ:   اور غیر ناجیہ فرقہ وہ ہے جس نے سلف یعنی صحابہ اور تابعین کے عقیدہ اور ان کے عمل کے خلاف کوئی عقیدہ اور عمل اپنالیا ہو۔

اس طرح شرح العقائد میں لکھا ہے:

قال فی شرح العقائد النسفیۃ فبھت الجبائی و ترک الاشعری مذھبہ فاشتغل ھو و من تبعہ بابطال رأی المعتزلۃ و اثبات ما ورد بہ السنۃ و مضیٰ علیہ الجماعۃ۔

(حاشیۃ الخیالی علی شرح العقائد:
۱۹)

ترجمہ:   شرح عقائد میں کہا ہے کہ جبائی لا جواب: ہوگیا اور اشعری نے ان کا مذہب چھوڑدیا، پھر وہ اور ان کے متبعین، معتزلہ کی رائے کو باطل کرنے میں اور اس عقیدہ کو ثابت کرنے میں مشغول ہوگئے، جس کے ساتھ سنت وارد ہوئی ہے اور جس پر صحابہ کرامؓ چلے۔

خلاصہ یہ ہے کہ فرقہ ناجیہ وہ ہے جو عقائد و احکام میں حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے مسلک پر ہوں اور قرآن کے ساتھ سنتِ نبویہؐ کو بھی صحیح مانتے ہوں اور اس پر عمل کرتے ہوں۔

مولانا مفتی شبیر احمد صاحب شیخ الحدیث جامعہ قاسمیہ، مراد آباد، الہند فرماتے ہیں کہ ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ آدمی سواد اعظم جمہور امت کے ساتھ رہے اور یہ بات ائمہ اربعہ کے متبعین میں ہی پائی جاتی ہے کہ ہر دور میں بڑے سے بڑے علماء و مشائخ مقلد ہی تھے اور پھر اس کے بعد غور کیا جائے تو سواد اعظم کا مسلکِ دیوبندی پر اطلاق ہوتا ہے کہ علماء و مشائخ کی بڑی تعداد اس مکتبِ فکر میں ہے، ان سب کو اہل سنت و الجماعت کہا جائے گا۔

(غیر مقلدین کے
۵۶اعتراضات کےجواب:ات:۱/۲۵۳)


 بشکریہ 
بشکریہ :  مولانا عادل سعیدی  مدظلہ  /  مولانا احمد سعید پالنپوری   مدظلہ
مکمل تحریر >>