Thursday 16 April 2015

مصافحہ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک ہاتھ سے یا دونوں ہاتھوں سے ؟؟؟


مصافحہ ۔ ۔ ۔ ۔  ایک ہاتھ سے یا دونوں  ہاتھوں سے ؟؟؟

 کیا دو ہاتھو ں  سے مصافحہ کرنا سنت سے ثابت نہیں؟ کیا یہ کبھی کبھی دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنا مکروہ ہےیا حرام ہے؟
 مولانا صاحب مجهے مصافحہ پر آپ سے کچھ گفتگو کرنی ہے ...
مولانا صاحب :- جی کیجئے

 سائل :- مصافحہ کا حکم شریعت میں کیا ہے؟ سنت یا نفل ؟
جواب :- سنت .....
 سوال :- سنت کسے کہتے ہے ؟
جواب :- ویسے سنت کی تعریف لمبی ہے لیکن فی الحال مختصر میں اس طرح سمجهے کہ جو اللہ کے نبی نے کیا اور صحابہ نے اسے اپنایا اس کو سنت کہتے ہیں .........
 سوال :- دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنا سنت ہے؟ یا مکروہ ہےیا حرام ہے ؟  یا فقط ایک ہاتھ سے کرنا ھی فرض ہے؟
جواب :- دو ہاتھ سے مصافحہ کرنا سنت ہے .......
 سوال :- مولانا صاحب ہم بڑے پریشان ہیں اس مسئلہ کو لیکر اسلئے کہ ہمارے غیر مقلد بھائی انگریزوں اور یہودیوں کی طرح ایک ہاتھ سے مصافحہ کرتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ یہی سنت ہے ......... اب ہم سوچ میں پڑ گئےہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو ہر طرح سے یہودیوں کی مشابہت سے بچایا ہے پھر یہ مصافحہ میں مشابہت کیسے ہوگئی ؟
آپ ذرا اس کے سنت ہونے کی دلیل  دیں گے ؟ بڑی مہربانی ہوگی .......
 جواب :- آپ نے چونکہ سوال غیرمقلدوں کے لئے کیا ہے اس لئے ہم جواب بهی انشاءاللہ بخاری سے دینے کی کوشش کریں گے
 ?دلیل  نمبر 1 :- ہاتھ کو عربی میں ید کہتے ہے اور دو ہاتھ کو یدین .......
امام بخاری ؒ نے اپنی صحیح بخاری میں عنوان قائم کیا ہے ‌:
  باب الأخذ بالیدین
مطلب ہاتھ کا پکڑنا دو ہاتھ سے ........
 بخاری کا نعرہ لگانے والوں نے اس مسئلہ میں امام بخاری کا ہاتھ چهوڑ دیا اور یہودیوں کا ہاتھ پکڑ لیا ........
 غور کرنے کا مقام ہے کہ ذرا بهی خیال نہ آیا کہ کس کا عمل لیا جا رہا ہے ؟
جو اللہ اور اس کے نبی اور تمام مسلمانوں کا دشمن ہے اس کے عمل کو اپنے سینے سے لگایا جا رہا ہے اور پیارے نبی کے عمل کو غیر مسنون بول کر ہلکا کرنے کی ناکام کوشش کی جا رہی ہے
 ان غیر مقلدوں کو پتا نہیں ہے کہ ناجی جماعت اہل سنت والجماعت تو نبی کے فرمان کے مطابق ہمیشہ ہر زمانہ میں رہنے والی ہے .................

 ?دلیل  نمبر 2:- آگے امام بخاری حضرت حماد بن زید اود عبداللہ بن مبارک کا عمل نقل کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں ‌:
 صافح حمادبن زید ابن المبارک بالیدین

مطلب حماد بن زید نے جو عبداللہ بن مبارک کے استاذ ہیں اپنے شاگرد سے دو ہاتھ سے مصافحہ کیا ...........
 اب زرا غور کرنے کی بات ہے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب میں اُسی حدیث یا اکابرین کے عمل کو نقل کیا ہے جو ان کے اصول کے حساب سے صحت کو پہنچتی ہے ...............
 مطلب امام بخاری کے لحاظ سے دو ہاتھ سے مصافحہ کا عمل صحت کو پہنچتا ہے تب ہی انہوں نے نقل کیا ہے ........
 غیر مقلد علماء نے اپنی عوام کو (دونوں احمدون کی طرح) کیوں دهوکہ میں رکھ کر بخاری کی یہ حدیث ان سے چھپائی اور انگریزوں و یہودیوں کی چال چلنے کو کہا .................

 ?دلیل  نمبر 3 :- اسی کے ساتھ ساتھ امام بخاری رحمہ اللہ نے ایک حدیث نقل کی ہے ۔ اس روایت میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجهکو التحیات سکهائی اور کیفیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ
  کفی بین کفیه
یعنی میرے ہاتھ کی ہتهیلی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دو ہتهیلی کے درمیان میں تهی .............
بات سمجھ میں آئی ؟
 سوال :- لیکن مولانا صاحب ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا تو ایک ہاتھ تها نا ؟
جواب :- بهائی میں نے آپ کو سنت کی مختصر تعریف کرتے هوئے سمجهایا تها کہ جو اللہ کے نبی نے کیا وہ سنت ہے .......
 سائل :- جی مولانا صاحب آپ کی بات سمجھ میں آگئی اور یہ بات بهی واضح ہو گئی کہ
ابتدائی غیر مقلدوں کا مقصد دو ہاتھوں سے انگریزوں کے مصافحہ نہ کرنے کے طریقہ کو سنت ثابت کرنا تھا اسلئے اسوقت کی حکومت کے غلام اھل حدیث کے ابن الوقت عالم نے رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے دو ہاتھوں سے ثابت مصافحہ کی سنت کی اشاعت کے بدلے انگریزوں کے مصافحہ کو ھی سنت قرار دیدیا اور بعد والے اھل حدیث بیچارے غیر محسوس طریقہ سے اپنے اس پیشوا کے عمل پر اسی طرح عمل کرنے لگے جسطر ح آج کل دو احمدون کو اپنا پیشوا ماننے والے کر رہے ہیں.............
 اللہ رب العزت آجکل کےان اھل حدیث کو انگریزوں پر فدا ھونے والے ابن الوقت مولویوں کی اتباع سے ھٹ کر رسول اللہ صل اللہ علیہ و سلم کے دو ہاتھوں سے مصافحہ کرنیکی سنت پر عمل کرنیکی ہدایت دے.
  اور یہ معصوم عوام دو ہاتھوں کے مصافحہ کی سنت کو حرام یا مکروہ تحریمی سمجھنا بندھ کرکے کبھی کبھی اپنے اس پرانے انگریزوں کے غلام مولوی کی مخالفت کرکے اپنے نبی کی دنوں ہاتھوں سے ملاقات کرنیکی اسلامی ھمت اپنا نے لگیں
 اور دوسرے فرقوں کے پیشواؤں کی طرح سنتون کو غیر سنت اور غیر سنتون سنت سمجھنا بندھ کریں
 اور دوسروں فرقون کی طرح فقط اپنی جدی پہچان کھڑی کرنےکے لئے مصافحہ کے مسئلے کو غلط سمجھانے اور اسپر ضد کرنے والے اپنے پرانے اکابرین کا اصلی چہرہ پہچاننے کی کوشش کرے


خصوصی شکریہ کے ساتھ :
محترم مولانا احمد سعید پالنپوری صاحب



0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔