Thursday 19 March 2015

ڈاکٹر ذاکر نائیک حقیقت کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔


 ڈاکٹر ذاکر نائیک حقیقت کے آئینہ میں ۔ ۔ ۔ 

اول تو انھوں نے علوم ِ اسلامیہ کو ان کے ماہر علماء ِ کرام سے حاصل نہیں کیا پھر غیر مقلد مکتبۂ فکر سے وابستگی نے انہیں فقہ وفتاویٰ اور مسائل ِ شرعیہ کے تعلق سے آزاد فکری کا عادی بنادیا۔ تیسری جانب اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے سائنس وٹیکنالوجی سے مرعوبیت کے نتیجہ میں بعض مقامات پر قرآنی آیات کی من مانی تشریح کرڈالی ۔ویسے اس وقت ان کے سارے مناظرے اور تحریریں اردو میں بھی کتابوں کی شکل میں منظر عام پر آچکی ہیں۔ علماء اور اصحاب ِ علم براہِ راست مطالعہ کرکے ان کےفکر ِ اسلامی سے انحراف کو سمجھ سکتے ہیں ۔ لیکن عصری تعلیم کا ایک بڑا طبقہ جو پیس ٹی وی پر ان کے خطابات سے استفادہ کرتا ہے سادہ لوحی کے سبب ان کی ہر بات کو من وعن قبول کررہا ہے ۔

چونکہ وہ عصری زبان اور انگریزی اصطلاحات کا کثرت سے استعمال کرتے ہیں اس لیے عصری تعلیم کا طبقہ بہت جلد ان سے متأثر ہوتا ہے ۔ ایسے میں ان کےفکری انحراف اور جمہور سلف ِ صالحین و ائمہ مجتہدین کے منہج سے ان کی دوری کو طشت از بام کرنا بے حد ضروری ہے ۔ 
ویسے ڈاکٹر صاحب کے انحراف اور قرآن وحدیث سے متعلقان کی من مانی تشریحات کے تعلق سے ملک کے ایک عالم ِ دین نے نہایت مبسوط کتاب ’’حقیقت ڈاکٹر ذاکر نائک‘‘ کے نام سے لکھی ہے جو ہر جگہ دستیاب ہے اور تفصیلی مطالعہ کے خواہشمند احباب کے لیے اس کا مطالعہ مفید ہے ۔ اس سے ہٹ کر ہندوستان کے نامور عالم ِ دین حضرت مولانا عبیدﷲ اسعدی صاحب نے بھی ایک مختصر رسالہ ’’ڈاکٹر ذاکر نائک کے خیالات ونظریات‘‘ کے نام سے تالیف کیا ہے ۔ جسے علماء ِ آندھراپردیش کی مؤقر تنظیم مجلس علمیہ نے شائع کیا ہے ۔اس میں اختصار کے ساتھ ذاکر نائک کے خیالات وافکار کا جائزہ لیا گیا ہے۔عدیم الفرصت احباب کے لیے اس کا مطالعہ کافی ہے ۔

علاوہ ازیں ڈاکٹر ذاکر نائک کے تعلق سے حالیہ دنوں میں دارالعلوم دیوبند سے ایک مفصل فتویٰ صادر ہوا ہے ۔ الٰہ آباد کے ایک مستفتی نے دارالعلوم دیوبند کو درج ذیل استفتاء روانہ کیاتھا۔

 - ڈاکٹرذاکر نائک ۔افکار ونظریات مولاناسید احمدومیض ندوی)استاذِ حدیث دارالعلوم حیدرآباد عالمی شہرت یافتہ شخصیت ڈاکٹر ذاکر نائک سے ہر شخص واقف ہے۔ عصری تعلیم کا نوجوان طبقہ ان سے بے حد متأثر ہے۔ ذاکرنائک دراصل میڈیکل ڈاکٹر ہیں۔ انہیں ﷲ تعالیٰ نے بلا کا ذہن عطافرمایا ہے ۔ غیر مسلم اور عیسائیوں کی جانب سے اسلام کے خلاف کئے جانے والے شبہات واعتراضات اور اسلام کا دیگر مذاہب ِ عالم سے تقابل ان کے مطالعہ کا خاص موضوع رہا ہے ۔
انہوں نے عیسائی اسکالروں کے ساتھ عالمی سطح کے مناظرے کئے اور کامیاب ہوئے۔ جس سے انہیں عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی۔ جوں جوں وہ شہرت کی منزلیں طے کرنے لگے ان کے اندر یہ احساس جڑ پکڑنے لگا کہ انہیں تمام علوم ِ اسلامیہ وشرعیہ پر مکمل دسترس حاصل ہے ۔ چنانچہ اپنے مخصوص اختصاصی موضوع سے ہٹ کر ہر موضوع پر اظہار ِ خیال کرنے لگے حتی کہ فقہ وفتاویٰ کو بھی انہوں نے تختۂ مشق بنانا شروع کردیا۔ اس طرح جب وہ تمام علوم ِ اسلامیہ پر اظہار ِ خیال کرنے لگے تو ان سے طرح طرح کی فروگذاشتیں ہونے لگیں حتی کہ ان سے ایسی باتیں صادر ہونے لگیں جو براہ ِ راست یا بالواسطہ اصول شریعت ِ اسلامیہ سے متصادم ہیں

۔معززمفتیان دارالعلوم دیوبند!السلام علیکم ورحمۃ ﷲ میرا سوال یہ ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کیسے آدمی ہیں ؟ کیا ان کے عقائد اہل السنۃوالجماعت کے موافق ہیں؟ حدیث و تفسیر قرآن میں ان کی رائے قابل ِ اعتبار ہے یا نہیں؟ نیز فقہ میں ان کا مسلک کیا ہے ؟ وہ کس امام کے مقلد ہیں؟ ہم ان کی باتوں کو سن کر ان پر عمل کرسکتے ہیں یا نہیں؟ از راہ ِکرم تشفی بخش جواب عنایت فرمائیں۔ریاض احمدخان عالیہ پرنٹرس، اترسوئیا)الٰہ آباد

سطور ِذیل میں دارلعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے صادر کئے گئے اس فتویٰ کا خلاصہ درج کیا جاتا ہے جو مندرجہ بالا استفتاء کے جواب میں لکھا گیا ہے ۔ یہ فتویٰ ڈاکٹر صاحب کے خیالات ونظریات کو سمجھنے کے لیے بہت کافی ہے ۔ اور چونکہ درالعلوم دیوبند جیسی مرکزی درسگاہ سے جاری کیا گیا ہے اس لیے غیر معمولی اہمیت رکھتا ہے

بِسْمِ ﷲِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ ، حَامِدًا وَّمُصَلِّیًا وَّمُسَلِّمًااَلْجَوَابُ وَبِاﷲِ التَّوْفِیْقِ وَالْعِصْمَۃِ۔ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب کے بیانات میں صحیح عقیدے سے انحراف، قرآن کریم کی تفسیر میں تحریف ومن مانی، سائنسی تحقیقات سے مرعوبیت، اسلام مخالف مغربی افکار سے ہم آہنگی اور فقہی مسائل میں سلف صالحین اور جمہور ِ امت کی راہ سے روگردانی جیسی گمراہ کن باتیں پائی جاتی ہیں ، نیز وہ امت ِ مسلمہ کو ائمہ مجتہدین کی اتباع سے پھیرنے، دینی مدارس سے برگشتہ کرنے اور علمائے حق سے عوام کو بدگمان کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ ذیل میں ان کی گمراہ کن باتوں میں سے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:)

(1) عقیدہ  : جو ایک انتہائی نازک چیز ہے ،جس میں تھوڑی سی بھی لغزش بسا اوقات ایمان کے لیے خطرہ بن جاتی ہے(سے متعلق ڈاکٹر صاحب کی چند باتیں:)

(الف ) وشنو اور برہما کے ذریعہ ﷲ کو پکارنا جائز ہے:
 وشنو اور برہما کے ذریعہ ﷲ کو پکارنا جائز ہے۔ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام میں فرماتے ہیں:’ﷲ تعالیٰ کو ہندؤں کے معبودان کے نام سے پکارنا جائز ہے، جیسے ’’وشنو‘‘ بمعنی رب اور ’’برہما‘‘ بمعنی خالق ، اس شرط کے ساتھ کے وشنو کے بارے میں یہ عقیدہ نہ رکھے کہ اس کے چار ہاتھ ہیں اور پرندے پر سوار ہے۔‘‘)اسلام اور عالمی اخوت: ۳۳ ڈاکٹر ذاکر نائک
(
حالانکہ غیر عربی زبان کے ان الفاظ سے ﷲ کو پکارناجائز ہے جو ﷲ تعالیٰ کے ساتھ مختص ہوں ، ان کے علاوہ سے جائز نہیں ، تو وشنو اور برہما جو ہندؤں کے شعار ہیں ، ان سے ﷲ کو پکارنا کیسے جائزہوسکتاہے؟)

)ب) اﷲ کا کلام کونسا ، اسے جانچنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی سے گزارنا :
اﷲ کا کلام کونسا ہے ، اسے جانچنے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی سے گزارنا ضروری ہے ۔ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام کے دوران کہتے ہیں:’’ہرانسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کی مقدس کتاب ہی ﷲ تعالیٰ کا کلام ہے اور اگر آپ چاہتے ہیں کہ معلوم کریں کہ کونسی کتاب واقعی ﷲ کا کلام ہے تو اسے آخری امتحان یعنی جدید سائنس اور ٹیکنالوجی سے گزاریں، اگر وہ جدیدسائنس کے مطابق ہوتو سمجھ لیں کہ یہ ﷲ تعالیٰ کا ہی کلام ہے ۔‘‘اس کلام سے ڈاکٹر صاحب کی گمراہ کن جرأت، کتاب ﷲ کے تئیں ان کی فکری بے راہ روی ،نیز جدید سائنس سے خطرناک حد تک مرعوبیت کا پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے ہر آن بدلنے والی سائنسی تحقیقات کو آسمانی کتابوں بالخصوص کلام ِ الٰہی قرآنِ کریم کو پرکھنے کا معیار قرار دے دیا، جب کہ ﷲ تعالیٰ کا کلام ہونے کی سب سے بڑی دلیل اس کا اعجازہے، جس کے ذریعے ﷲ تعالیٰ نے جگہ جگہ قرآن میں چیلنج کیا ہے۔

)ج)  فتویٰ دینے کا حق ہر کس وناکس کو ہے:
ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:’’ ہر کسی کے لیے فتویٰ دینا جائز ہے ، اس لیے کہ فتویٰ کا معنٰی رائے دینا ہے ۔‘‘)حوالہ بالا(یہاں ڈاکٹر صاحب فتویٰ دینے جیسے اہم کام ـــــــ جس میں علامہ ابن القیمؒ کے الفاظ کے مطابق مفتی احکامِ الٰہی کے بیان میں رب ِکائنات کا ترجمان اور اس کی نیابت میں دستخط کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے : لم تصلح مرتبۃ التبلیغ بالروایۃ والفتیا الا لمن اتصف بالعلم والصدق… واذا کان منصب التوقیع عن الملوک بالمحل الذی لا ینکرہ فضلہ ولا یجھل قدرہ … فکیف بمنصب التوقیع عن رب الأرض والسموات ، فحقیق بمن اقیم فی ھذا المنصب ان یعدلہعدتہ ویتأھب لہ أھبتہ وأن یعلم قدر المقام الذی أقیم فیہ۔)اعلام الموقعین :۱/۹۱( ـــــــ کو رائے دینے کے ہلکے پھلکے لفظ سے تعبیر کرکے صرف اپنے لیے ہی نہیں بلکہ ہر کس وناکس کے لیے اس کا جواز فراہم کررہے ہیں، اور انہوں نےقرآن کریم کی آیت: فاسئلوا اھل الذکر ان کنتم لا تعلمون یعنی اگر تمہیں علم نہیں ہے تو اہل ِ علم سے دریافت کرلو اور حدیث نبوی : من أفتی بغیر علم کان إثمہ علی من أفتاہ۔ )اخرجہ ابوداؤد فی سننہ: ۳۵۹، رقم: ۳۶۵۹۳، باب تفسیر القرآن عن رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم(یعنی جو آدمی بلا صحیح معلومات کے فتویٰ دے دیتا ہے تو اس کا گناہ فتویٰ دینے والے پر ہوگا  ) کو بالکل فراموش کردیا۔

)۲( تفسیر قرآن میں من مانی تشریح یعنی تحریف ِ معنوی:
قرآن کریم کی تفسیر کا معاملہ بڑا نازک ہے ، اس لیے کہ مفسر آیت ِ کریمہ سے مراد ِ خداوندی کی تعیین کرتا ہے کہ ﷲ نے یہ معنٰی مراد لیا ہے ، لہٰذا نااہل آدمی کا اس وادی میں قدم رکھنا انتہائی خطرناک ہے ، حدیث میں ہے : من قال فی القرآن برأیہ فأصاب فقد أخطأ۔)اخرجہ الترمذی رقم: ۲۷۷۶( یعنی جو آدمی محض اپنی عقل سے تفسیر کرے تو اگرچہ وہ اتفاقاً درست معنٰی تک پہنچ جائے پھر بھی اسے غلطی کرنے والاسمجھا جائے گا۔ ایک دوسری روایت میں ہے : من قال فی القرآن برأیہ فلیتبوأ مقعدہ من النار۔)اخرجہ الترمذی : ۵/۱۹۹، رقم: ۲۹۵۱( اسی لیے مفسر کے لیے بہت سی شرائط ہیں ، مثلاً قرآن کی تمام آیتوں پر نظر، ذخیرۂ حدیث سے متعلق وسیع معلوما ت، عربی زبان اور اس کے قواعد ِ نحو، صرف اور اشتقاق اور فصاحت وبلاغت کا اچھا علم ہو وغیرہ۔ جہاں تک ڈاکٹر صاحب کا تعلق ہے تو ان کے اندر مذکورہ شرائط میں سے ایک بھی شرط ضروری حد تک نہیں پائی جاتی ، نہ وہ عربی زبان اور اس کے قواعد سے کما حقہ واقف ہیں اور نہ ذخیرۂ حدیث پرگہری نظر ہے اور نہ ہی فصاحت وبلاغت سے کوئی زیادہ واقفیت ہے ۔ (ذیل کی مثالوں سے یہ بات واضح ہوجائے گی) جب کہ تفسیر میں گمراہی میں پڑنے کے جتنے اسباب ہیں مثلاً حضور ا اور صحابہ وتابعین سے منقول تفسیروں سے روگردانی، زمانے کے افکار سے مرعوبیت اور قرآنِ کریم کے موضوع کو غلط سمجھنا وغیرہ ڈاکٹر صاحب کے اندر بدرجہ اتم موجود ہیں، اسی لیے انہوں نے دسیوں آیتوں کو اپنی ناواقفیت سے مشق ِ ستم بنایا، ذیل میں چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:

)الف) آیت ِ کریمہ اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ کی تفسیرمیں ڈاکٹرصاحب کہتے ہیں:’’ لوگ کہتے ہیں کہ لفظ ’’قوام‘‘ کا معنٰی ایک درجہ اوپر ہونے کے ہیں، لیکن اصل ’’قوام‘‘ ’’إقامۃ‘‘ سے نکلا ہے ، إقامۃ کا مطلب کھڑا ہونے کے ہیں، لہٰذا إقامۃ کا مطلب ہوا کہ ایک درجہ ذمے داری میں اونچا ہے ، نہ کہ فضیلت میں‘‘)خطبات ذاکر نائک: ۲۹۵، فریدبکڈپو دہلی(

ڈاکٹر صاحب نے مغربی نظریۂ مساوات کی تائید میں آیت ِ قرآنی کی من مانی تفسیر کرتے ہوئے مردوں کے ایک درجہ فضیلت میں اونچا ہونے کی نفی کردی، جب کہ امت کے بڑے بڑے مفسرین نے فضیلت میں اونچا ہونے کا معنٰی بیان کیاہے ،چنانچہ ابن کثیرؒ نے اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَائِ کے تحت لکھا: ای الرجل قیم علی المرأۃ ای ھو رئیسھا وکبیرھا والحاکم علیھا، مؤدبھا اذا عوّجت) یعنی مرد کی حیثیت اس کی بیوی کے سامنے حاکم اور سردار کی ہے ، ضرورت محسوس ہونے پر شوہر بیوی کی مناسب تادیب بھی کرسکتا ہے۔ نیز آیت ِکریمہ وللرجال علیھن درجۃ کی تفسیر میں ابن کثیر ؒ نے لکھا ہے : وللرجال علیھن درجۃ ای فی الفضیلۃ فی الخلق والمنزلۃ وطاعۃ الامر والإنفاق والقیام بالمصالح والفضل فی الدنیا والآخرۃ)۱/۶۱۰( یعنی شوہر بیوی سے فضیلت، رتبہ اور اطاعت وغیرہ میں ایک درجہ اونچا ہے، نیز ڈاکٹر صاحب کی تفسیر حدیث نبوی:لو کنت آمراً أحداً أن یسجد لأحد لأمرت النساء أن یسجدن لأزواجھن  (اخرجہ أبوداؤد)    یعنی اگر ﷲ کے سوا کسی اور کوسجدہ جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں، کے خلاف ہے ، اس لیے کہ اگر دونوں فضیلت میں برابر ہوتے اور شوہر کو عورت پر کوئی برتری حاصل نہ ہوتی تو حضورؐ عورتوں کو اپنے شوہروں کو سجدہ جو انتہائی تعظیم ہے کا حکم کیوں دینے والے تھے۔

)ب)      ڈاکٹر صاحب ، ایک سوال: ’’قرآن کریم میں ہے کہ کسی ماں کے رحم میں موجود بچے کی جنس صرف ﷲ کو معلوم ہے، مگر اب سائنس کا فی ترقی کرچکی ہے اور ہم آسانی سے الٹرسونوگرافی کے ذریعے جنین کی تعیین کرسکتے ہیں، کیا یہ قرآنی آیت میڈیکل سائنس کے خلاف نہیں ہے ؟‘‘ کے جواب میں فرماتے ہیں:’’…صحیح ہے کہ قرآن کی اس آیت کے مختلف ترجمے اور تشریحات میں کہا گیا ہے کہ صرف ﷲ سبحانہ وتعالیٰ ہی جانتا ہے کہ ماں کے رحم میں موجود بچے کی جنس کیا ہے ؟ مگر اس آیت کا عربی متن ملاحظہ کریں تو دیکھیں گے کہ انگلش کالفظ)Sex(کاکوئی عربی متبادل استعمال نہیں ہوا، اصل میں قرآن جو کچھ کہتا ہے وہ یہ ہے کہ رحموں میں کیا ہے؟ اس کاعلم صرف ﷲ سبحانہ وتعالیٰ کو ہے ، کافی مفسرین کو غلط فہمی ہوئی اور انہوں نے اس کے یہ معنٰی مراد لیا ہے کہ ﷲ ہی ماں کے رحم میں بچے کی جنس کو جانتا ہے ،یہ درست نہیں، یہ آیت جنین کی جنس کی طرف اشارہ نہیں کرتی بلکہ اس کا اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ماں کے رحم میں موجود بچے کی فطرت کیسی ہوگی؟ وہ کیا اپنی ماں باپ کے لیے باعث ِ رحمت ہوگا یا عذاب؟‘‘الخ (اسلام پر چالیس اعتراضات: ۱۳۰، ازڈاکٹر ذاکر نائک، اریب پبلیکیشر ، دہلی(

صحیح    جواب: آیت ِ کریمہ کا مقصد ﷲ تعالیٰ کے لیے علم ِ غیب کو ثابت کرنا ہے اور علم ِ غیب در حقیقت اس یقینی علم کو کہا جاتا ہے جو کسی سبب ِ ظاہری کے بغیر براہ ِ راست کسی آلے کے بغیر حاصل ہو، طبی آلات سے ڈاکٹروں کو حاصل ہونے والا علم نہ یقینی ہوتا ہے اور نہ ہی بلاواسطہ، بلکہ وہ محض ظنی ہے اور آلات کے واسطے سے حاصل ہوتا ہے ، لہٰذا الٹراسونوگرافی کے ذریعے حاصل ہونے والے اس ظنی علم سے قرآنی آیت پر کوئی اعتراض وارد نہ ہوگا۔

)۳(  احادیث ِ نبویہ سے ناواقفیت ذخیرۂ حدیث سے ناواقفیت کی وجہ سے ڈاکٹر صاحب نے بہت سی جگہوں پر صحیح احادیث کے خلاف مسائل بتلائے ، نیز کتنے ہی مقامات پر کسی مسئلے پر متعدد احادیث ہونے کے باوجود کہہ ڈالا کہ اس باب میں کوئی دلیل نہیں ، ذیل میں ڈاکٹر صاحب کی احادیث سے جہالت یا دانستہ چشم پوشی کی چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

)الف) عورتوں کے حالت ِ حیض میں قرآن پڑھنے کا جواز:ایک پروگرام ’’گفتگو‘‘ میں عورت کے خاص ایام کے بارے میں ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں:’’قرآن وحدیث میں نماز کی رخصت ہے، لیکن کسی حدیث میں نہیں کہ وہ قرآن نہیں پڑھ سکتی‘‘حالانکہ ترمذی شریف میں صریح حدیث ہے: لا تقرأ الحائض ولا الجنب شیئا من القرآن یعنی جنبی اور حائضہ قرآن نہ پڑھیں۔آپ غور کیجئے کہ ڈاکٹر صاحب نے صحیح وصریح حدیث کے موجود ہونے کے باوجود دعویٰ ہمہ دانی کرتے ہوئے اس کا انکارکردیا۔

)ب)     خون سے وضوٹوٹنے پر احناف کے پاس کوئی دلیل نہیں۔سائنسی تحقیق سے مرعوب ہوکر اس سے پیدا ہونے والے سرسری اعتراض سے بچنے کے لیے قرآن کی دوسری آیت اور صحابہ وتابعین سے منقول تفسیر کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک معروف معنی کا انکار کردیا اور بڑے بڑے مفسرین پر تنقید اور ان کی تغلیط کرڈالی۔ ڈاکٹر صاحب نے جو معنٰی بیان کیا ہے ’’ما‘‘موصولہ کے عموم میں آسکتا ہے اور بہت سے مفسرین نے ایک احتمال کے طور پر پہلے معنٰی کے ضمن میں اس کا بھی ذکر کیا ہے ، لیکن دوسرے معنٰی کا انکار کردینا قطعاً صحیح نہیں، بلکہ ڈاکٹر صاحب کی قلت ِ تدبر اور تفسیر میں صحابہ وتابعین کے اقوال سے روگردانی کی واضح دلیل ہے، اس لیے کہ ڈاکٹر صاحب نے جس معنٰی کی نفی کی ہے اسی کی طرف سورۂ رعد کی آیت : وﷲ یعلم ما تحمل کل انثی وما تغیض الارحام وما تزداد)الرعد: ۸( یعنی ﷲ تعالیٰ کو سب خبر رہتی ہےکہ جو کچھ کسی عورت کو حمل رہتا ہے اور جو کچھ رحم میں کمی بیشی ہوتی ہے‘‘ اشارہ کررہی ہے ، نیز مشہور تابعی اورتفسیر کے امام قتادہؒ سے بھی یہی معنٰی مروی ہے ، چنانچہ حضرت قتادہؒ فرماتے ہیں: فلا یعلم ما فی الارحام أ ذکر أم انثی الخ یعنی رحم ِ مادر میں نر ہے یا مادہ اس کا قطعی علم سوائے خدا کے کسی اور کو نہیں۔ اسی طرح ابن کثیر ؒ نے اپنیتفسیر )۶/۳۵۵( میں ، علامہ نسفی ؒ نے تفسیر مدارک )۳/۱۱۶( میں اور امام شوکانیؒ نے )فتح القدیر ۵/۴۹۸( میں مذکورہ آیت کا یہی معنٰی بیان فرمایا، لیکن ڈاکٹر صاحب ان اکابر مفسرین کے بیان کردہ معنٰی کو غلط ٹھہراکر اپنے بیان کردہ معنٰی کو قطعی سمجھ کر اسی پر مصر ہیں۔ڈاکٹر صاحب ایک تقریر میں خون سے وضوٹوٹنے اور نہ ٹوٹنے کے موضوع پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’۔ ۔ ۔

بعض علمائے کرام خصوصاً فقہ ِ حنفی سے متعلق علمائے کرام کے خیال میں خون بہنے سے وضوٹوٹ جاتا ہے ، نماز کےدوران خون بہہ جانے کی صورت میں کس کو کیا کرنا چاہیے، اس سوال کے جواب میں ان کا فتویٰ)احناف کا فتویٰ( بہت طویل ہے تاہم ان کے اس نقطہ نظر کی تائید میں بہ ظاہر کوئی ثبوت نہیں ہے۔‘‘)حقیقت ذاکر نائک: ۲۱۴، مکتبہ مدینہ دیوبند(یہاں پر ڈاکٹر صاحب نے فقہ ِ حنفی سے متعلق علماء پر الزام لگا ڈالا کہ وہ بلاثبوت وضوٹوٹنے کی بات کہتے ہیں، حالانکہ خون سے وضو ٹوٹنے کے سلسلہ میں بہت سی حدیثیں مروی ہیں، نیز صحابہ کرامؓ کا تعامل بھی اسی پر رہا، ذیل میں چند روایتیں ملاحظہ فرمائیں:

)۱(        اخرج البخاری عن عائشۃ رضی اﷲ عنہا قالت : جاء ت فاطمۃ بنت ابی حبیش الی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم فقالت : یا رسول اﷲ ! انی امرأۃ استحاض فلا اطھر، افادع الصلاۃ؟ قال : لا ، انما ذلک عرق ولیست بالحیضۃ، فاذا اقبلت الحیضۃ فدعی الصلاۃ واذا ادبرت فاغسلی عنک الدم قال ھشام : قال ابی ثم توضئی لکل صلاۃ حتی یجییٔ ذلک الوقت۔

)۲(      اذا رعف احدکم فی صلاتہ فلینصرف فلیغسل عنہ الدم ثم لیعد وضوء ہ ویستقبل صلا تہ )اخرجہ الدار قطنی( یعنی دورانِ نماز اگر کسی کی نکسیر پھوٹ جائے تو اسے چاہیے کہ خون کو دھولے اور وضودہرائے۔)

)۳(      عن زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ الوضوء من کل دم سائل ۔ اخرجہ ابن عدی فی الکامل )نصب الرایۃ للامام الزیلعی :۱/۳۷( یعنی خون بہنے سے وضولازم ہوجاتا ہے۔یہ اور ان کے علاوہ بہت سی روایات کے باوجود ڈاکٹر صاحب نے اپنی ناواقفیت کا اظہار نہ کرکے مجتہدانہ دعویٰ کردیا کہ بہظاہر خون سے وضوٹوٹنے پر کوئی ثبوت نہیں ہے۔

ائمہ مجتہدین کے اتباع سے فرار او رمسائل ِ فقہیہ میں سواد ِاعظم کی راہ سے نمایاں انحراف :

ڈاکٹر ذاکر نائک صاحب اپنی تحریرات اور تقریرات کی روشنی میں کسی امام کے متبع معلوم نہیں ہوتے، بلکہ اباحیت، جدت پسندی نیز غیر مقلدیت اور لامذہبیت کے شکار ہیں، صرف یہی نہیں کہ ڈاکٹر صاحب کسی متعین امام کی تقلید نہیں کرتے بلکہ ائمہ کی تقلید کرنے والے مخلص عوام کو عدم ِ تقلید کی روش اپنانے کی تعلیم دیتے ہیں اور اپنے بیان کردہ مسائل میں کہیں کسی امام، کہیں کسی امام کا قول واستنباط کردہ حکم کو اپنی طرف منسوب کرکے نقل کرتے ہیں، اور کہیں خود مجتہدانہ انداز پر مسئلے بیان کرنے لگتے ہیں، جب کہ ان کو مسائل نقل کرنے میں اسمتعین امام کانام لینا چاہیے جنہوں نے اس مسئلے کا استنباط کیاہے ، تاکہ سننے والے کو یہ مغالطہ نہ ہو کہ قرآن وسنت سے صرف یہی ثابت ہے ، اس کے علاوہ جو دوسری باتیں لوگوں کے عمل میں ہیں، چاہے وہ قرآن وحدیث سے ثابت ہو اور ائمہ مجتہدین کا قول کیوں نہ ہو غلط ہے، ذیل کی مثالوں سے مذکورہ باتوں کا بہ خوبی اندازہ ہوجائے گا۔ ملاحظہ فرمائیں:

-              بلاوضو قرآن چھونا جائز ہے۔ڈاکٹر صاحب ایک جگہ فرماتے ہیں:’’بلاوضو قرآن کریم چھونے کی اجازت ہونی چاہیے۔الخ حالانکہ ڈاکٹر صاحب کا یہ قول آیت ِ کریمہ :لا یمسہ الا المطھرون ، نیز تمام ائمہ مجتہدین کے خلاف ہے۔

-              ڈاکٹر صاحب ایک پروگرام’’گفتگو‘‘ میں تقریر کرتے ہوئے مشورہ دیتے ہیں کہ’’مسلمانوں کو ایسا طریقہ اپنانا چاہیے کہ پوری دنیا میں ایک دن عید ہوسکے۔‘‘ڈاکٹر صاحب کی یہ رائے ارشاد ِ نبوی : صوموا لرؤیتہ وافطروا لرؤیتہ یعنی ’’چاند دیکھ کرروزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی افطار کرو‘‘کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ عقل ِ سلیم کے بھی خلاف ہے ، اس لیے کہ وحدت ِ عید کا مسئلہ اصل میں اس بنیاد سے پیدا ہوتا ہے کہ عید کو ایک تہوار یا ملکی تقریب یا قومی ڈے قرار دیا جائے، مگر یہ انتہائی غلط سوچ ہے، اس لیے کہ ہماری عیدین، رمضان اور محرم کوئی تہوار نہیں بلکہ سب کی سب عبادات ہیں، نیز اوقات کا ہر ملک ہر خطہ میں وہاں کے افق کے اعتبار سے مختلف ہونا لازمی ہے، ہم ہندوستان میں جس وقت عصر کی نماز پڑھتے ہیں اس وقت واشنگٹن میں صبح ہوتی ہے ، جس وقت ہم ہندوستان میں ظہر کی نماز ادا کرتے ہیں اس وقت لندن میں مغرب کی نماز ہوچکی ہوتی ہے ، نیز ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک ملک میں جمعہ کا دن ہوتا ہے تو دوسرے میں ابھی جمعرات ہے اور تیسرے میں سنیچر کا دن شروع ہوچکا ہے ، ان حالات میں کسی ایک دن میں پوری دنیاوالوں کے عید منانے کا تصور کیسے کیا جاسکتا ہے؟الغرض ان تنقیدات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ ڈاکٹرذاکر نائک صاحب بہت سے مسائل میں اہل سنت والجماعت کے عقائد سے ہٹے ہوئے ہیں، قرآن وحدیث کی تشریح میں لغت ِ عرب اورسلف سے منقول تفاسیر کو نظر انداز کرکے عقل خام کی مدد سے تفسیر کرکے تحریف ِ معنوی کے شکار ہیں، نیز وہ)ڈاکٹر صاحب( علوم ِ شرعیہ اور مقاصد ِ شرعیہ سے گہری واقفیتنہ ہونے کے باوجود کسی امام کی تقلید نہیں کرتے ، بلکہ الٹے وہ ائمہ مجتہدین پر تنقید کرتے ہیں، اس لیے ان (ڈاکٹر صاحب) کی باتیں ہرگز قابل ِ اعتبار نہیں، ان کے پروگرام کو دیکھنا، ان کے بیانات سننا اور بلا تحقیق ان پر عمل کرنا سخت مضر ہے۔ 
اور چونکہ واقعی تحقیق کرنا ہر کس وناکس کی بات نہیں اس لیے ان کے پروگرام سے عامۃ المسلمین کو احتراز کرنا ضروری ہے۔ نیز ہر مؤمن کو یہ بات ہمیشہ مستحضررکھنا چاہیے کہ دین کا معاملہ جو ایک حساس معاملہ ہے ، انسان دین کی باتیں سنتا اور اس پر عمل کرتا ہے صرف آخرت میں نجات پانے کے لیے ، اس میں صرف نئی نئی تحقیق، برجستہ جوابات ، حوالوں کی کثرت اور لوگوں میں بہ ظاہر مقبولیت دیکھ کر بلا تحقیق کسی کی بات پر ہرگزعمل نہیں کرنا چاہیے، بلکہ انسان پر ضروری ہے کہ وہ غور کرلے کہ وہ آدمی دینی علوم میں کیا اہلیت رکھتا ہے ؟ کن اساتذہ سے علم حاصل کیا ہے ؟ کس ماحول میں اس کی پرورش ہوئی ؟ اس کی وضع قطع ، لباس، ہیئت دیگر علماء وصلحاء سے میل کھاتی ہے یا نہیں ؟ نیز معاصر قابل ِ اعتماد علماء اور مشائخ کی اس شخص کے بارے میں کیا رائے ہیں؟

اسی طرح یہ بھی دیکھ لینا ضروری ہے کہ اس سے متأثر ہونے والوں اور اس کے گرد جمع ہونے والوں میں صحیح دینی شعور رکھنے والے کتنے ہیں اوردینی خدمات سے وابستہ معتبر لوگ کس حد تک؟ اگر کچھ معتبر لوگ قریب ہیں تو ان سے معلوم کرنے کی ضرورت ہے کہ اس کی نوعیت کیا ہے ؟ اور وہ کیوں قریب ہیں؟ایسا تو نہیں کہ کسی غلط فہمی ، معلومات کی کمی یا کسی مصلحت ِ مزعومہ کے تحت وہ قریب دکھائی دے رہے ہوں ؟ حاصل یہ ہے کہ ان تمام باتوں کی تحقیق کے بعد اگر اطمینان ہوجائے تبھی دینی معاملے میں اس کی باتیں قابل ِ اعتبار اور لائق ِ عمل ٹھہریں گی ، ورنہ اس سے دور رہنے ہی میں ایمان کی سلامتی ہے ۔مشہور تابعی محمد بن سیرین کا مقولہ ہے : ان ھذا العلم دین فانظروا عمن تاخذون دینکم یعنی دین کی باتوں کو سننے اور سیکھنے کے لیے ضروری ہے کہ خوب غور کرلو کہ کیسے لوگوں سے علم حاصل کررہے ہو اور دین سیکھ رہے ہو۔ ﷲ تعالیٰ ہر ایک کو صراط ِ مستقیم پر چلنے کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین

حضرت مولانا زین السلام قاسمی الہ آبادی



بشکریہ : مولانا انظر حسین کڑھی -

2 تبصرے comments:

Mukarram Niyaz نے لکھا ہے کہ

مسلکی اختلافی مسائل پر آج کل آپ کے بلاگ پر کچھ زیادہ ہی پوسٹس آ رہی ہیں۔
پہلے ہی اردو کے فورمز اس قسم کی اکھاڑ پچھاڑ تحریروں سے بھرے پڑے ہیں ۔۔۔ کم از کم بلاگ کو تو ایسے موضوعات سے محفوظ رکھا جائے۔
ہاں اگر موضوعاتی بلاگ ہو تو کوئی مسئلہ نہیں۔

noor نے لکھا ہے کہ

محترم مکرم نیاز صاحب

سلام مسنون

اب آپ کو کیا جواب دوں محترم

بلاگ کے عنوان سے ہی آپ بلاگ کا مقصد سمجھ سکتے ہیں ۔ ۔ ویسے بھی میں مسلکی اختلافات بھڑکانے میں بالکل یقین نہیں رکھتا ۔ اور میرے دوسرے بلاگ " نون میم " میں شاید ہی کوئی مسلکی اختلافی مسائل سے متعلق مضمون آپ کو پڑھنے ملے ۔
اور اس بلاگ کے بنانے کے پیچھے بھی ایک درد ہے ۔ اس بتانے کی یہ جگہ نہیں ہے ان شاء اللہ کبھی فرصت میں اس بلاگ کے مقصد کے بابت بھی چند الفاظ لکھوں گا۔

خیر ۔ ۔ ۔ بلاگ پر آتے رہیئے گا اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازتے رہیئے گا۔

طالب دعا : نون میم

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔