Monday 30 March 2015

صحابہ کرام رضی اللہ عنہما کس کے مقلد تھے؟ اور ان کے امام اعظم کون تھے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ؟

سوال :
ایک وہابی عالم کا کہناہے کہ دیوبندی ویسے تو کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام کی راہ پر چلتے ہیں، لیکن عمل نہیں کرتے ہیں ۔ اگر صحابہ کرام کی راہ پرہیں تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کس کے مقلد تھے؟ اسی طرح حضرت عمر اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہما کس کے مقلد تھے؟ اور ان کے امام اعظم کون تھے؟ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم یا امام ابو حنیفہ رحمة اللہ علیہ؟

اس سوال کو سمجھنے سے پہلے یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ صحابہٴ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی اور یہ دو گروہ تھے، مجتہد اور مقلد یہ سب صحابہ عربی داں تھے، لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحابِ فتویٰ صرف ۱۴۹ تھے، جن میں سے سات مکثرین ہیں یعنی انھوں نے بہت زیادہ فتوے دیئے ۲۰/صحابہ متوسطین میں ہیں، جنھوں نے کئی ایک فتوے دیے ۔ ۱۲۲ مقلین ہیں، جنھوں نے بہت کم فتوے دیے، ان مفتی صحابہٴ کرام کے ہزاروں فتاویٰ مصنف ابن ابی شبیہ، مصنف عبد الرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں، جن میں ان مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطورِ دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہ نے بلا مطالبہ دلیل ان کے اجتہادی فتاویٰ پر عمل کیا، اسی کا نام تقلید ہے، ان مفتی صحابہ کے بارے میں شاہ ولی اللہ فرماتے ہیں: ثم إنھم تفرقوا فی البلاد وصار کل واحد مقتدی ناحیة من النواحي کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہرعلاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ (الانصاف:۳) بحوالہ مطالعہ غیر مقلدیت۔ مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینے میں حضرت زید بن ثابت کوفہ میں حضرت عبد اللہ بن مسعود یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی، اسی طرح تابعی عالم کا مذہب قرار پایا اور ہرشہر میں ایک امام ہوگیا، لوگ اس کی تقلید کرتے اور بعد میں چل کر پوری امت نے یا ان میں سے قابل لحاظ لوگوں نے (یعنی اہل حق نے) ان چارمدون و منقح مذاہب کی تقلید کے جواز پر اتفاق کیا ہے اور یہ اجماع آج تک مستمر ہے اوراس تقلید میں وہ مصلحتیں ہیں جو مخفی نہیں، خصوصاً اس زمانہ میں جب کہ ہمتیں پست ہوچکی ہیں اور نفوس میں خواہشات پلادیئے گئے اور ہرذی رائے اپنی رائے پر ناز کرتا ہے منھا أن ھذہ المذاہب الأربعة المدوّنة المحررة قد أجمعت الأمة أو من یعتد بہ منھا علی جواز تقلیدھا إلی یومنا ھذا وفي ذلک من المصالح ما لا یخفی الخ (حجة اللہ البالغة ج۱ ص۴۳۱، ط دیوبند) مذکورہ بالا تحریرات سے پتہ چلا کہ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید ضروری ہے اور سوال میں درج اجلاء صحابہٴ کرام کے کسی کی تقلید کیے بغیر خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث سے مسائل استنباط کرکے ان پر عمل کرنے سے عام حکم لگادینا کہ تقلید ائمہ ضروری نہیں ہے، سراسر غلط اور کم علمی ہے کیونکہ یہ حضرات خود اجتہاد کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے اور دوسروں میں یہ بات نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم






0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔