Tuesday 24 March 2015

اہلحدیث کون ؟ ؟ ؟


اہلحدیث کون ؟ ؟ ؟

ذیل میں میں اہلحدیث کس کو کہتے ہیں اس کا مکمل خاکہ مختصرا پیش کرنے کی کوشش کر رہا ہو.

موجودہ اہلحدیث فرقہ کا کہیں پر بهی وجود ثابت نہیں ہے. اس کا وجود ہندوستان میں انگریز دور سے شروع ہوتا ہے اور آج کل یہ منهج اہلحدیث کے نام سے باقاعدہ پیغام ترتیب دے کر کے لوگوں میں عام کر رہے ہیں جبکہ ان کی حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے اور وہ اس منهج کے عشر عشیر پر بهی عمل نہیں کرتے اور نہ ان میں اس کی صلاحیت موجود ہے. 

ہندوستان کے مشہور عالم دین مولانا محمد شاہ صاحب شاہجہانپوری لکهتے ہے " پچهلے زمانہ میں شاذ و نادر اس خیال کے لوگ کہیں ہوں تو ہوں، مگر اس کثرت سے دیکهنے میں نہیں آئے بلکہ ان کا نام ابهی تهوڑے ہی دنوں سے سنا ہے، اپنے آپ کو تو وہ اہلحدیث یا محمدی یا موحد کہتے ہیں مگر مخالف فریق میں ان کا نام غیر مقلد یا وہابی یا لامذہب لیا جاتا ہے. ( الارشاد الی سبیل الرشاد. 13)
🔺مولانا محمد حسین بٹالوی صاحب نے انگریزی حکومت کو درخواست دی کہ ان کے ہم خیال لوگوں کو سرکاری طور پر اہلحدیث کا نام دیا جائے، اس کے بعد اس اصطلاح جدید میں اہلحدیث سامنے آئے اور ہندوستان میں ترک تقلید کے عنوان سے ایک مستقل مکتب فکر کی بنیاد پڑگئی. ان کے نزدیک تقلید حرام. ایک وقت میں دی ہوئی تین طلاق ایک شمار (العیاذ باللہ) اور خطبہ جمعہ میں خلفائے راشدین کا نام لینا بدعت اور جمعہ میں آذان اول اور اجماع صحابہ کے منکر ہیں اور بہت سارے عقائد میں اہلسنت والجماعت (مذاہب اربعہ) کے منهج کے بالکل خلاف ہے موجودہ لامذہب ٹولے میں ہر شخص اجتهاد کرنے کا اہل ہے جبکہ اہلسنت والجماعت میں مجتہد اجتہاد کا اہل ہے اور عامی کو مجتہد کی تقلید کرنے کا حکم ہے، چونکہ ہر شخص اس درجہ کو نہیں پہونچ سکتا تو تقلید شخصی میں ہی یعنی کسی ایک امام کی تقلید میں ہی کامیابی ہے.

🔺علامہ شاطبی رحمہ الله فرماتے ہیں:
علامہ ابن حزم نے اجماع نقل کیا ہے کہ مذہب میں رخص تلاش کرنا فسق ہے جو کسی صورت جائز نہیں.( الموافقات4/84. المسالتہ الثالثہ). خلاصہ کلام عبارت بالا سے معلوم ہوا کہ تتبع رخص اور اس کا دروازہ تقلید شخصی سے ہی بند ہوگا اس لئے تقلید شخصی واجب ہوگئی.

🔺علامہ منادی فرماتے ہیں: 
ایک امام کی تقلید لازم ہے اس قسم کی پابندیاں اس لئے لگائی گئیں تاکہ لوگ نفس و خواہشات میں رخص تلاش نہ کرتے پهریں.(فیض القدیر. 1/403)

🔺علامہ شاطبی فرماتے ہیں:
اگر مقلدین کو یہ اختیار ملتا کہ ائمہ اربعہ کے مذاہب میں سے جس مسئلے کو چاہیں اختیار کر سکتے ہیں تو اس کا حاصل سوائے نفس و خواہشات کی پیروی کے کچھ نہ ہوتا اور یہ مقاصد شرع کے خلاف ہے. (الموافقات 82/4)

🔺 علامہ ابن تیمیہ فرماتے ہیں:
اس کو تتبع رخص کہا جاتا ہے جو کہ حرام ہے کیونکہ دین تابعداری اور فرمابرداری کا نام ہے اور اس میں مرضی کا دخل نہیں اور یہ آزادی تقلید شخصی نہ ہونے کی وجہ سے ہے اس لئے کسی ایک امام کے مسلک کا پابند کیا جائے گا. (مجموعتہ الفتاوی 32/66)

اہلسنت والجماعت سے جو جو عقائد لامذہب ٹولے کے ٹکراتے ہیں وہی عقائد شیعوں کے نزدیک بهی لازم ہے. اس کے ساتھ ساتھ اکابرین امت کی خامیوں کو اچهالنا، ان کی خدمات کو بالائے طاق رکھ کر ان کے خلاف عوام میں غلط تاثر پیدا کرنا ان کا خاص مشغلہ ہے.

🔺امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں کہ کسی کو حق نہیں کہ وہ قرآن و سنت اور اجماع صحابہ کی موجودگی میں اپنی رائے سے کوئی بات کہے. 🔺( الخیرات الحسان از ابن حجر شافعی مکی رحمہ الله)

🔺حضرت ابوذر غفاری رضی الله عنہ کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا " جو شخص مسلمانوں کی جماعت سے ایک بالشت برابر بهی جدا ہوا تو اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال دی".🔺 ( ابو داود/جلد2/صفحہ307.مسند احمد، مشکاة)

تقلید کے جواز پر امت کی جماعت عظیمہ کا اجماع ہے جو اس سے الگ ہیں وہ اپنی خیر منائیں.

 اصلی اہلحدیث کون؟

 اہل الحدیث حنفی
عبد الکریم شہرستانی نے چند افراد کے نام گنوائے ان میں سے ایک امام ابو حنیفہ بهی ہیں اور آخر میں فرمایا 
🔺اور یہ تمام کے تمام ائمہ حدیث ہیں🔺(تذکرہ الحفاظ. ج 1. ص 158)
زمر بن ہزیل امام ابو یوسف قاسم بن معن علی بن مسر امام طحاوی عافیہ بن یزید عبدالله بن مبارک یحیی بن سعید القطان 
🔟 یحیی بن معین.

 اہل الحدیث شوافع
صاحب مذہب امام ادریس شافعی رحمہ الله امام ترمذی امام مسلم امام نسائی ابو خضر ابن حبان ابو السید ابن ماجہ رحمہم الله تعالی.

 اہل الحدیث مالکیہ
امام ابو نطیب قاضی ابو طاہر زملی امام ابن الباجی امام اسماعیل القاضی.

 اہل الحدیث حنابلہ 
امام المقدسی الاشرم ابن الجوزی ابن شیخ عبد القادر جیلانی یعنی ابوبکر عبد الرزاق.

سلف کی نظر میں اہلحدیث سے کون مراد ہیں؟ 
قرون اولی اور قرون وسطی میں اہلحدیث سے وہ مراد اہل علم تهے جو حدیث پڑهنے پڑهانے راویوں کی جانچ پڑتال اور حدیث کی شرح و روایت میں مشغول رہتے ہوں. حدیث ان کا فن ہو اور وہی علمی طور پر اس کے اہل ہو. دوسرے لفظوں میں یوں سمجهئے کہ ان ادوار میں اہلحدیث سے محدثین مراد لئے جاتے تهے. اگر کوئی علمی طور پر اس درجہ میں نہیں کہ حدیث پر کوئی فیصلہ دے یا اس کے راویوں کو پہنچانے تو صاف کہہ دیا جاتا تها کہ وہ اہلحدیث میں سے نہیں ہے، عامی ہے. 
اہلحدیث سے مراد فن حدیث کے ماہرین ہیں اس وقت تک اہلحدیث کا لفظ انہی معنوں میں بولا جاتا تھا جو عہد قدیم میں اس لفظ کے معنی تھے، یہ لفظ اہل علم کے اس طبقہ کے لئے استعمال ہوتا تھا جو محدثین تھے، یہ کسی ایک مکتب فکر فرقے کا نام نہ تھا، اہل حدیث الفاظ حدیث کو ان کے اصول مراجع مصادر سے پہچانتے ہیں اور و ہ محدثین ہیں، سو اس میں کوئی شک نہیں کہ اہلحدیث باصطلاح قدیم سے مراد فن حدیث کے جاننے والے تھے، اہل العلم بالاثار سے یہی مراد ہے۔

نوی صدی کے اہلحدیث میں حافظ ابن حجر عسقلانی الشافعی(852ھ) اور حافظ ابن ہمام اسکندری(861ھ) کے ناموں سے کون واقف نہیں، پہلے بزرگ شافعی ہیں اور دسرے حنفی اور دونوں اہل حدیث کے علماءفن مراد لیتے تھے، ان الفاظ سے کوئی خاص فقہی مسلک مراد نہیں لیاجاتا تھا۔

اہل فن محدثین میں پھر کئی فرقے اور مسالک تھے، ان میں حنفی بھی تھے اور شافعی بھی، اہلحدیث خود کسی فرقے کا نام نہ تھا،کسی محدث کا فقہی مسلک اس کے اہلحدیث ہونے کے خلاف نہ سمجھا جاتا تھا،محدث ہونے کے پہلو سے سب اہل حدیث تھے، نوی صدی کا حال اور اس دور کے علماءکی اصطلاح ابن ہمام کی اس تحریر سے ظاہر ہے،پھر علامہ شامیؒ (1253 ھ)اس تیرہویں صدی ہجری میں نقل کرتے ہیں اور اس میں کہیں اختلاف ذکر نہیں کرتے کہ اہلحدیث نام سے ان دونوں کوئی غیر مقلدجماعت بھی مراد لی جاتی تھی، معلوم ہوتا ہے کہ اس وقت تک اہلحدیث سے وہ اہل علم ہی مراد لئے جاتے تھے جو فن حدیث میں حاذق اور صاحب الرائے ہوں، جس طرح تفسیر پڑھنے والے اہل تفسیر اور زبان پر کامل دسترس رکھنے والے اہل لغت کہلاتے تھے،محدثین کا یہ طبقہ حدیث کے نام سے بھی کبھی ذکر ہوتا تھا،ہندوستان میں حضرت شیخ عبدالحق دہلوی سے حدیث کی باقاعدہ اشاعت ہوئی، آپ کے دور تک لفظ اہل الحدیث اسی پرانی اصطلاح سے جاری تھا، حضرت شیخ ایک مقام پر لکھتے ہیں”تابعین اور تبع تابعین میں ان کے کئی ساتھی تھے اور وہ سب اہلحدیث و فقہ و زہد و ورع تھے۔ (انوارالسنتہ لرداد الجنتہ۔
۲۱ مطبع : حسامیہ دیوبند)

اہلحدیث سے مراد ترک تقلید کے نام سے ایک فقہی مسلک ہوا یہ جدید اصطلاح اسلام کی پہلی تیرہ صدیوں میں کہیں نہیں ملتی، اس کاآغاز چودھویں صدی ہجری سے ہوتا ہے یا یوں سمجھ لیئجے کہ تیرہویں صدی کے آخر میں ہندوستان میں اس کے لئے کچھ حالات سازگار ہوگئے تھے تب یہ فرقہ وجود میں آیا۔

حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمة اللہ علیہ نے غیرمقلدین کےبارے میں فرمایا"شیعوں کی طرح یہ بھی ایک اچھا خاصہ تبرائی فرقہ ہے"
ان میں خصوصیت سے ایک بات ایسی بری ھے جو جڑ ھے تمام خرابیوں کی وہ یہ ہے کہ ان میں مرض ہے بدگمانی کا پھراس سےبدزبانی پیداھوتی ھے بزرگوں کی شان میں بدزبانی کرنایا ان کی طرف بدگمانی کرنا نہایت خطرناک چیز ھے میں یہ نھیں کہتا کہ بزرگوں کےمعتقد بنو معتقد ھونا فرض نھیں مگربدگمانی سے بچنا فرض ھے...اگریہ نھیں توپھر
شیعوں کی طرح یہ بھی ایک اچھاخاصہ تبرائی فرقہ ھے
حوالہ الافاضات الیومیہ جلد 7 صفحہ 52
بحوالہ آثارالتشریع جلد1 صفحہ 354

ان تمام حقائق کے بعد ہم پر لازم آتا ہے کہ ہم اس موجودہ اہلحدیث فتنہ سے عوام کو آگاہ کریں. اپنے لئے اور پوری امت کے لئے صراط مستقیم پر ثابت قدمی کی دعائیں مانگتے رہے.

(سید عبد المقتدر کاظمی)

بشکریہ  : مولانا  احمد سعید پالنپوری

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔