Friday 23 January 2015

انکارِ حدیث کیوں؟ مولانا محمد یوسف لدھیانوی

انکارِ حدیث کیوں؟؟؟؟   مولانا محمد یوسف لدھیانوی

بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم

الحمد للّٰہ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ .
اما بعد!
مذہب اسلام کیلئے موجودہ دور میں جو سوالات خاص اہمیت کے حامل ہیں، ان میں حدیث نبوی (علی صاحبہا الف الف سلام) کے متعلق مندرجہ ذیل سوالات بالخصوص توجہ طلب ہیں۔
۱- حدیث کا مرتبہ اسلام میں کیا ہے؟
۲- حدیث سے شریعت اسلامیہ کو کیا فوائد حاصل ہوئے؟
۳- حدیث پر اعتماد نہ کیا جائے تواس سے دین کو کیا نقصان ہوگا، دور حاضر میں انکار حدیث کی جو وباء پھوٹ پڑی ہے، یہ کن جراثیم کا نتیجہ ہے؟
سطور ذیل میں ہم ان سوالات پر غور کرنا چاہتے ہیں۔
واللّٰہ الموفق والمعین.
لیکن اصل سوالات پر بحث کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم چند اصولی امور ناظرین کی خدمت میں پیش کردیں جن سے نظر وفکر کی مزید راہیں کھل سکیں۔
۱- نبی امت کی عدالت میں
انکار حدیث کا فتنہ ظہور میں آچکا ہے۔ بحث کرنے والے پوری قوت کے ساتھ اس بحث میں مصروف ہیں کہ حدیث حجت ہے یا نہیں؟ جن لوگوں کی طرف سے یہ بحث اٹھائی گئی ہے ان کا حال تو انہی کو معلوم ہوگا لیکن جہاں تک میرے ایمان کا احساس ہے یہ سوال ہی غیرت ایمانی کے خلاف چیلنج ہے جس سے اہل ایمان کی گردن ندامت کی وجہ سے جھک جانی چاہئے۔
اس فتنہ کے اٹھانے والے ظالموں نے نہیں سوچا کہ وہ اس سوال کے ذریعہ نبی اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات کو اعتماد یا عدم اعتماد کا فیصلہ طلب کرنے کے لئے امت کی عدالت میں لے آئیں گے۔ امت اگر یہ فیصلہ کردے گی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بات (حدیث) قابل اعتماد ہے، تواس کے مرتبہ کا سوال ہوگا اور اگر نالائق امتی یہ فیصلہ صادر کردیں کہ ”نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی بات (حدیث) آپ کے زمانہ والوں کے لئے لائق اعتماد ہوتو ہو لیکن موجودہ دور کے متمدن اور ترقی پسند افراد کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث پر ایمان لانے کے لئے مجبور کرنا ملائیت ہے“ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا فیصلہ ہوجائے گا۔ (معاذ اللہ، استغفراللہ) اگر دل کے کسی گوشے میں ایمان کی کوئی رمق بھی موجود ہے تو کیا یہ سوال ہی موجب ندامت نہیں کہ نبی صلى الله عليه وسلم کی بات لائق اعتماد ہے یا نہیں؟
تُف ہے! اس مہذب دنیا پر کہ جس ملک کی قومی اسمبلی میں صدرمملکت کی ذات کو تو زیر بحث نہیں لیا جاسکتا (پاکستان کی قومی اسمبلی کے اسپیکر نے متعدد دفعہ یہ رولنگ دی ہے کہ معزز ارکان اسمبلی صدر مملکت کی ذات گرامی کو زیر بحث نہیں لاسکتے) لیکن اسی ملک میں چند ننگ امت، آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات اقدس کو نہ صرف یہ کہ زیر بحث لاتے ہیں بلکہ زبان وقلم کی تمام تر طاقت اس پر صرف کرتے ہیں کہ امت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے خلاف عدم اعتماد کا ووٹ دے ڈالے۔اگر ایمان اسی کا نام ہے تو مجھے کہنا ہوگا، ﴿بئسَمَا یَأمُرُکُمْ بِہِ ایمانکم انْ کُنْتُمْ مُوٴمِنِیْن﴾۔
بہرحال مریض دلوں کے لئے انکار حدیث کی خوراک لذیذ ہوتو ہو (غلبہ صفراء کی وجہ سے ان مسکینوں کو اس کی تلخی کا احساس نہیں ہوتا) لیکن میرے جیسے گنہگار اور ناکارہ امتی کے لئے یہ موضوع خوشگوار نہیں بلکہ یہ بحث ہی تلخ ہے، نہایت تلخ، مجھے کل ان کے دربار میں جانا ہے اور ان کی شفاعت کی امید ہی سرمایہ زندگی ہے۔ سوچتا ہوں اور خدا کی قسم، کانپتا ہوں، کہ اگر ان کی طرف سے دریافت کرلیاگیا کہ ”او نالائق! کیا میری حدیث کا اعتماد بھی محل بحث ہوسکتا ہے؟ تو میرے پاس کیا جواب ہوگا؟ اسلام کے ان فرزندان ناخلف نے خود رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر جرح وتعدیل کا جو راستہ اختیار کیا ہے واللہ! اس میں کفر ونفاق کے کانٹوں کے سوا کچھ نہیں ﴿فَمَنْ شَاءَ فَلْیُوٴمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْیَکْفُرْ﴾ (اب جس کا جی چاہے نبی کی بات پر ایمان لائے اور جس کا جی چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے)
۲- فتنہ کی شدت
فتنہ کی کجی ملاحظہ کیجئے۔ دین قیم کے وہ صاف، واضح، روشن اور قطعی مسائل جن میں کل تک شک وتردد کا ادنیٰ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا؛ کل تک ملت اسلامیہ جن کو یقینی مانتی چلی آئی تھی، شکی مزاج طبیعتیں آج ان ہی مسائل کو غلط اور ناقابل قبول ٹھہراتی ہیں۔
ایک رسول اکرم صلى الله عليه وسلم کی ذات اب تک محفوظ تھی، تمام امت کا مرجع تھی، ہر امتی آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے فرمان کے سامنے سرتسلیم خم کردیا کرتا تھا۔ امت میں کوئی اختلاف رونما ہو، اس کے فیصلہ کے لئے آپ کی ذات آخری عدالت تھی اور آپ کا ہر فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا تھا، لیکن افسوس! آج کس کے پاس یہ شکایت لے جائیں کہ فتنہ کے سیلاب کی موجیں علماء، صلحاء، صوفیاء، متکلمین، محدثین، مجتہدین، تابعین اور صحابہ (رضی اللہ عنہم اجمعین) ان سب کو روندتی ہوئی دین وشریعت کی آخری فیصل ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم سے ٹکرارہی ہیں اور چاہا جاتا ہے کہ انسانیت کی سب سے بڑی اور سب سے آخری عدالت کو بھی مجروح کردیا جائے فالی اللہ المشتکی.
اف! مبتلائے فتنہ امت میں یہ بحث موضوع سخن ہے کہ کیا رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی حدیث حجت ہے یا نہیں، دینی حیثیت سے قابل قبول ہے یا نہیں؟ کیا یہ صاف اور موٹی بات بھی کسی کی عقل میں نہیں آسکتی کہ کسی ذات کو نبی اور رسول ماننا یا نہ ماننا تو ایک الگ بحث ہے۔ لیکن جس ذات کو رسول مان لیا جائے، ماننے والے کے ذمہ اس کی ہر بات کا مان لینا بھی ضروری ہے، جس کام کا وہ حکم کرے اس کی تعمیل بھی ماننے والے کے لیے لازم ہے اور جس فعل سے وہ منع کرے اس سے رک جانا ضروری ہے۔
رسول کو رسول مان کر اس کے احکام میں تفتیش کرنا کہ یہ ”حکم آپ اپنی طرف سے دے رہے ہیں یا خدا کی طرف سے؟ اور اگر آپ اپنی طرف سے کوئی ارشاد فرماتے ہیں تو اس کی تعمیل سے معاف رکھا جائے“ نری حماقت نہیں تو اور کیا ہے۔ یہ کتنی صاف اور سیدھی بات تھی لیکن نہیں معلوم لوگ عقل کو کہاں استعمال کیا کرتے ہیں کہ ایسے بدیہی امور میں بھی شک اور تردد کا مرض ان کو ایمان ویقین سے محروم کئے رکھتا ہے۔
شرح تحریر میں ہے۔
”حجیة السنة سواءٌ کانت مفیدة للفرض او الواجب أو غیرہما (ضرورةٌ دینیةٌ) کل من لہ عقل وتمیز حتی النساء والصبیان یعرف أن من ثبت نبوتہ صادق فیما یخبر عن اللّٰہ تعالی ویجب اتباعہ“ (تیسیر التحریر ص:۲۲ ج۳)
ترجمہ: سنت خواہ مفید فرض ہو یا واجب یا ان کے علاوہ کے لئے مفید ہو، اس کا حجت ہونا دین کا ایسا واضح مسئلہ ہے جس میں طلب دلیل کی ضرور نہیں، جس کو ذرا بھی عقل وتمیز ہو، عورتوں اور بچوں تک بھی، وہ جانتا ہے کہ جس کی نبوت ثابت ہو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو کچھ بتلائے گا اس میں قطعاً سچا ہوگا اور اس کی بات کی پیروی واجب ہوگی۔“
منکرین حدیث کی کورچشمی ملاحظہ کرو۔ اس پر اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم رسول برحق ہیں اس پر بھی اتفاق ہے کہ علم و عرفان کے سرچشمہ ہوتے ہیں الغرض آفتاب طلوع ہوچکنے کے بعد، بحث اس پر ہورہی ہے کہ سورج نکلنے کے بعد دن ہوتا ہے، یا رات ہوتی ہے۔ زبان وقلم، عقل وفہم اور دل ودماغ کی قوتیں اس پر صرف کی جارہی ہیں کہ رسول کو رسول ماننے کے بعد اس کی کسی بات (حدیث) پراعتماد نہیں کیا جاسکتا۔ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ جو خیرہ چشم طلوع آفتاب کا اقرار کرنے کے باوجود ”دن نہیں رات“ کی رٹ لگارہا ہو اور چاہتا ہو کہ تمام دنیا اسی کی طرح آنکھیں موندلے، بتلایا جائے کہ آپ ایسے سوفسطائی کو کس دلیل سے سمجھاسکتے ہیں۔
اسی طرح محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا زبانی اقرار کرنے والوں سے جب سنا جاتا ہے کہ جس ذات کو ہم رسول مانتے ہیں اسی کا کوئی قول اور فعل ہمارے لئے حجت نہیں تو بتلائیے ایسے محرومان بصیرت کے لئے کونسا سامان ہدایت سود مند ہوسکتا ہے؟ کاش ان کو چشم بصیرت نصیب ہوجاتی۔ ﴿فَانَّہَا لا تَعْمَی الأبْصَارُ وَلکِنْ تَعْمَی الْقُلُوب الَّتِیْ فِی الصُّدُوْرِ﴾ ”کیونکہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں، بلکہ وہ دل اندھے ہوچکے ہیں جو ان کے سینوں میں ہیں۔“
۳- منکرین حدیث کی بے اصولی
حدیث کا جو ذخیرہ اس وقت امت کے پاس محفوظ ہے اس کے دو جز ہیں۔
(۱) متن (۲) سند۔ یعنی ایک تو حدیث کے وہ جملے ہیں جو قولاً یا فعلاً یا تقریراً صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی طرف منسوب ہیں کہ آپ نے یہ ارشاد فرمایا تھا یا آپ نے فلاں عمل کرکے دکھایا یا آپ نے فلاں کام کی ... جو آپ کے سامنے کیاگیا، تصویب فرمائی۔ دوم اساتذہ حدیث کا وہ سلسلہ ہے جو امت اورامت کے نبی صلى الله عليه وسلم کے درمیان واسطہ ہیں۔ مثلاً امام بخاری جس حدیث کو روایت کریں گے وہ ساتھ ہی یہ بھی بتلاتے جائیں گے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے یہ حدیث کن کن واسطوں سے ہم تک پہنچی۔
پوری امت کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ کی حدیث جن لوگوں نے خود آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان فیض ترجمان سے سنی وہ سننے والوں کے حق میں اسی طرح قطعی تھی جس طرح قرآن کریم قطعی ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کی زبان مبارک سے جو حکم بھی صادر ہوا بالمشافہ سننے والوں کے لئے اس کا درجہ وحی خداوندی کا ہے اگر آپ نے اس کو قرآن میں لکھنے کا حکم دیا تو وہ وحی جلی کہلائے گا ورنہ وحی خفی۔
قسم اوّل (وحی جلی) کے الفاظ اور معنی دونوں اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل شدہ تھے۔
قسم دوم (وحی خفی) کا مضمون منجانب اللہ ہوتا تھا، الفاظ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ہوتے تھے، بہرحال وحی کی یہ دونوں قسمیں چونکہ منجانب اللہ ہیں اس لئے دونوں پر ایمان لانا اور دونوں کا قبول کرنا اہل ایمان کے ذمہ ضروری ہوا۔ البتہ روایت حدیث کے اعتبار سے حدیث کی مختلف قسمیں ہوجاتی ہیں جن کی تفصیل کو مع ان کے احکام کے اپنی جگہ بیان کیاگیا ہے۔
اب منکرین حدیث کی بے اصولی دیکھئے کہ وہ ان دونوں اجزاء (متن حدیث اور سند حدیث) کے متعلق مخلوط بحث کریں گے۔ حالانکہ بے اعتمادی کا زہر پھیلانے سے پہلے انصاف ودیانت کا تقاضا یہ تھا کہ محل بحث کو طے کرلیا جاتا کہ کیا ان کو نفس حدیث ہی پر اعتماد نہیں خواہ وہ کتنی ہی صحیح کیوں نہ ہو؟ یا نفس حدیث پر ان کو اعتماد ہے اور وہ اسے دینی سند بھی تسلیم کرتے ہیں لیکن موجودہ ذخیرہ حدیث کے متعلق ان کی بے اعتمادی کا سبب یہ ہے کہ پوری امت میں ان کو ایک شخص بھی ایسا نہیں ملا جس نے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی یہ امانت امت تک صحیح پہنچادی ہو اس لئے اس کو موجودہ ذخیرہ حدیث سے ضد ہے۔ مثلاً امام مالک کی وہ روایت جو مالک، عن نافع، عن ابن عمر، عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سند سے مروی ہیں، جو شخص ان روایات پر بے اعتمادی کا اظہار کرتا ہے، کیا اس کا فرض نہ ہوگا کہ وہ اپنی بداعتمادی کی وجہ بتلائے کہ آیا اسے حدیث کے ان تین ناقلین، مالک، نافع، ابن عمر رضی اللہ عنہم پر ہی اعتماد نہیں۔ معاذ اللہ۔ یا خود ذات رسالت مآب صلى الله عليه وسلم پر اعتماد نہیں۔ استغفراللہ۔
بہرحال جب تک موضوع کی تنقیح اور تعین نہ کرلی جائے، اس وقت تک کسی بھی مسئلہ پر بحث لغو اور لایعنی مشغلہ ہے۔ لیکن آپ منکرین حدیث کو پائیں گے کہ وہ کبھی نفس حدیث پر بحث کریں گے کہ محمد صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں حدیث کا کوئی مقام نہیں اور کبھی بے چارے ناقلین حدیث پر تبرا شروع کردیں گے کہ ان لوگوں نے اُمت کی یہ امانت بعد میں آنے والی امت تک کیوں پہنچائی۔ لیکن انکار حدیث کا منشاء متعین کرنے سے وہ گریز کریں گے۔ اس لئے میں کہوں گا کہ حدیث پر سے اعتماد اٹھانے کا اصل حل تلاش کرو اور محل بحث تلاش کرنے کے بعد افہام و تفہیم کریں۔ یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ قصور وار ناقلین روایت ہوں اور فرد جرم خود حدیث پر عائد کردی جائے۔ یا اعتماد نفس حدیث پر نہ ہو،اور اس کی سزا حدیث روایت کرنے والی پوری امت کو دی جانے لگے۔
۴- انکار حدیث کا عبرتناک انجام
حدیث پر اعتماد نہ کرنے والوں کو معاذ اللہ ثم معاذ اللہ ذات نبوی صلى الله عليه وسلم یا پوری امت میں سے ایک کو ناقابل اعتماد قرار دینا ہوگا استغفراللہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ زیدکا کلام عمرو نقل کرے، سننے والے کو زید کے صدق کا یقین ہو اور عمرو پر اعتماد ہو کہ وہ نقل میں جھوٹا نہیں لیکن اس کے باوجود کہے، کہ یہ کلام جھوٹا ہے۔ بہرحال یہاں یہ سوال کسی خاص حدیث کا نہیں بلکہ مطلق حدیث کا ہے۔ جب اس کا انکار کیا جائے گا اور اسے ناقابل اعتماد قرار دیا جائے گا تو اس صورت میں یا خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم کی ذات سے اعتماد اٹھانا ہوگا یا پوری امت کو غلط کار اور دروغ گو کہنا ہوگا۔ انکار حدیث کی تیسری کوئی صورت نہیں۔ اور ان دونوں کا نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ اگر معاذ اللہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم یا چودہ سو سالہ امت سے اعتماد اٹھالیا جائے تواس کے معنی اس کے سوا اور کیا ہیں، کہ اسلام اور قرآن پر بھی ان کا اعتماد نہیں۔ اور دین وایمان کے ساتھ بھی ان کا کچھ واسطہ نہیں۔ ان حدیث رسول صلى الله عليه وسلم کے متعلق بے اعتمادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والوں کو ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال دل میں نہ لانا چاہئے کہ اس تمام تر سعی مذموم کے باوجود وہ اسلام اور قرآن کو بے اعتمادی کے جھگڑے سے محفوظ رکھ سکیں گے۔
* * *
۵- تنقیح بحث
اب تمام تر بحث جو آپ کے سامنے آئے گی، وہ نفس حدیث سے متعلق ہوگی، سند حدیث اور رجال سند کی بحث کو ہمارے موضوع سے خارج سمجھنا چاہئے۔
ان ابتدائی اشارات کے بعد ہم پہلے سوال پر غور کرتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے ۲۳ سالہ دور نبوت کے ارشادات، کلمات طیبات، قضایا اور فیصلے، افعال واحوال، سیرواخلاق، الغرض اس طویل مدت میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے امت کو جو زبانی حکم دیا یا جوکچھ عملاً کردکھلایا، یا کسی عمل کی تصویب قولاً یا سکوتاً فرمائی (ان ہی امور کے مجموعہ کا نام حدیث ہے)
* ان سب کو قرآن مجید کیا مرتبہ دیتا ہے؟
* خود آنحضرت صلى الله عليه وسلم کے نزدیک ان کی حیثیت کیا تھی؟
* صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اپنے تقریبا صد سالہ دور میں ان کے ساتھ کیا تعلق رکھا؟
* صحابہ کرام کے بعد کی امت کی نظر میں ان کا کیا مرتبہ رہا؟
* عقل صحیح کی روشنی میں ان کا کیا مقام ہے؟
یہ پانچ نکات ہیں، جن پر غور کرنا ضروری ہے۔ ایک مجلاتی مضمون میں جس قدر شرح وبسط کی گنجائش ہوسکتی ہے حتی الوسع اختصار کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ حق تعالیٰ سوء فہم اور قصور تعبیر سے حفاظت فرمائیں (آمین)
۱- فرمودہ رسول صلى الله عليه وسلم کو بلا چون وچرا قبول کرو
قرآن کریم حکم دیتا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی طرف سے جو کچھ دیا جائے۔ اس کو بلا چون وچرا قبول کرلیں اور آپ کے منع کردہ امور سے باز رہیں۔ اگر انھوں نے ایسا نہ کیا،تو ان کے حق میں شدید عذاب کا اندیشہ ہے۔ارشاد خداوندی ہے:
﴿وَمَا اٰتٰکُمُ الرَّسُولُ فخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا﴾ (الحشر:۷)
(ترجمہ) اورر سول تمہیں جو کچھ بھی دے دیں۔ اس کو لے لو اور جس چیز سے روک دیں اس سے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ
سے ڈرتے رہو۔ بے شک اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والے ہیں۔
۲- حکم نبوی سے روگردانی باعث فتنہ وعذاب ہے
آپ صلى الله عليه وسلم کے امر کی مخالفت کرنے والے لوگوں کو ڈرایاگیا ہے کہ ان کی یہ روش بدترین فتنہ اور دردناک عذاب میں انہیں دھکیل کر رہے گی۔
﴿فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ أمْرِہ أن تُصِیْبَہُمْ فِتْنَةٌ أوْ یُصِیْبَہُمْ عَذَابٌ ألِیْمٌ﴾ (النور:۶۳)
(ترجمہ) اور جو لوگ آپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔انہیں ڈرنا چاہئے، کہ کہیں ان کو کوئی عظیم فتنہ پیش نہ آجائے یا کہیں ان کو عذاب الیم کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
چنانچہ شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کے ذیل میں رقمطراز ہیں:
یعنی اللہ اور رسول کے حکم کی خلاف ورزی کرنے والوں کو ڈرتے رہنا چاہئے کہ کہیں ان کے دلوں میں کفر ونفاق وغیرہ کا فتنہ ہمیشہ کے لئے جڑ پکڑ نہ جائے۔اور اس طرح دنیا کی کسی سخت آفت یا آخرت کے دردناک عذاب میں مبتلا نہ ہوجائیں،العیاذ باللہ۔ (تفسیر عثمانی ص۴۶۶)
۳- اطاعت نبوی باعث رحمت خداوندی ہے
رحمت خداوندی کے نزول کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کاملہ کے ساتھ وابستہ کیاگیا ہے۔ فرمان باری ہے۔
﴿وَأقِیْمُوْا الصَّلوٰةَ وآتُوْ الزَّکَوةَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ﴾ (النور۵۶)
”اور اے مسلمانوں نماز کی پابندی رکھو، اور زکوٰة دیا کرو، اور باقی احکام میں بھی رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کیاکرو۔ تاکہ تم پر کامل رحم کیاجائے۔ (ترجمہ حکیم الامت رحمہ اللہ)
۴- فوز وفلاح کا راز
ہر قسم کی فوز وفلاح، رشدوہدایت، اور بہبودیٴ دنیا وآخرت کو آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت میں منحصر قرار دیاگیا۔
﴿وَمَنْ یُطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَاُوْلٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أنْعَمَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ مِنَ النَّبِیِیْنَ وَالصِدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَاءِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیْقًا، ذلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اللّٰہِ، وَکَفٰی بِاللّٰہِ عَلِیْمًا﴾ (النساء۶۹)
(ترجمہ) ”اور جو شخص اللہ اور رسول کا کہنا مان لے گا۔ تو ایسے اشخاص بھی ان حضرات کے ساتھ ہوں گے جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا۔ یعنی انبیاء اور صدیقین، اور شہدا اور صلحاء اور یہ حضرات بہت اچھے رفیق ہیں۔ یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے اور اللہ تعالیٰ کافی جاننے والے ہیں۔“
۵- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم محبت ومحبوبیت الٰہی کا معیار ہے
دعوائے محبت خداوندی کے صدق وکذب کا امتحان کرنے کے لئے اتباعِ محبوبِ خدا صلى الله عليه وسلم کو معیار قرار دیاگیا۔ اسی کے ساتھ آپ کی ہر ادا کی نقل اتارنے والوں کو مقام محبوبیت پر فائز ہونے کی بشارت اور مغفرت سے ہمکنار ہونے کی خوشخبری سے نوازا گیا ہے۔
﴿قُلْ انْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ (آل عمران:۳۰)
(ترجمہ) آپ صلى الله عليه وسلم فرمادیجئے۔ اگر تم اللہ سے محبت رکھتے ہو، تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم سے محبت کریں گے۔ تمہارے گناہ بخش دیں گے اور اللہ تعالیٰ بڑے بخشنے والے بہت رحم والے ہیں۔
علامہ شبیر احمد عثمانی ان آیات کی تفسیر کرتے ہوئے یوں رقمطراز ہیں:
”دشمنان خدا کی موالات ومحبت سے منع کرنے کے بعد خدا تعالیٰ سے محبت کرنے کا معیار بتلاتے ہیں۔ یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو، تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمد صلى الله عليه وسلم کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہوجائے گا جو شخص جس قدر حبیب خدا محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی راہ چلتا،اور آپ کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے،اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت کے دعوے میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعوے میں سچا ہوگا،اتنا ہی حضور صلى الله عليه وسلم کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا۔جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا۔اور اللہ کی محبت اور حضور صلى الله عليه وسلم کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہوجائیں گے۔ اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری باطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی۔ مختصراً ان آیات میں پیغمبر آخر الزماں کی اطاعت کی پرزور طریقے سے دعوت دی گئی ہے۔ (تفسیر عثمانی ص۶۹)
۶- آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی تصفیہ طلب امور میں بحیثیت آخری عدالت!
اعلان کیاگیا کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو جب تک شعار زندگی نہ بنایا جائے گا اور ہر قسم کے تصفیہ طلب امور کے لئے آپ کی ذات پاک کو آخری عدالت کی حیثیت نہیں دی جائے گی اہل ایمان کو نہ ذرہ خیروبرکت میسر آسکتا ہے نہ اس کے بغیر کسی اچھے انجام کی توقع رکھی جاسکتی ہے۔
﴿یَا أیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وأولِی الأمْرِ مِنْکُمْ، فَانْ تَنَازَعْتُمْ فِی شَیْءٍ فَرُدُّوْہ الی اللّٰہِ وَالرَّسُوْلِ انْ کُنْتُمْ تُوٴمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکَ خَیْرٌ وَّ أحْسَنُ تأوِیْلاً﴾ (النساء:۵۹)
(ترجمہ) اے ایمان والو! تم اللہ کا کہنا مانو، اور رسول کا کہنا مانو اور تم میں سے جو لوگ اہل حکومت ہیں، ان کا بھی۔ پھر اگر کسی امر میں تم باہم اختلاف کرنے لگو تو اس امر کو اللہ اور رسول کے حوالے کردیا کرو۔ اگر تم اللہ پر اور یوم قیامت پر ایمان رکھتے ہو یہ امور سب بہتر ہیں۔اور انجام کار خوش تر ہیں۔
مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ باہمی اختلافات کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ کے مطابق حل کریں اوراگر کوئی اپنے اختلافات ختم کرنے کے لئے قرآن وسنت سے پہلو تہی کرتا ہے تو وہ دائرہ اسلام سے خارج تصور ہوگا۔
علما نے لکھا ہے کہ اگر دو مسلمان آپس میں جھگڑیں۔ ایک نے کہا کہ چلو شرع کی طرف رجوع کریں۔ دوسرے نے کہا کہ میں شرع کو نہیں سمجھتا یا مجھ کو شرع سے کیاہے۔ تو اس کے یہ کلمات دائرئہ اسلام سے خارج کرنے والے ہیں۔ (تفسیر عثمانی)
۷- رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کا حکم واجب العمل ہے
آگاہ کیاگیا ہے کہ نہ صرف دینی امور بلکہ خالص دنیوی امور میں بھی کسی مومن مرد اور عورت کو آپ کے فیصلے کے بعد کسی قسم کی گنجائش نہیں کہ فیصلہ نبوت کے بعد وہ اپنے لئے ادنیٰ اختیار کا تصور بھی ذہن میں لائے۔
﴿وَمَا کَانَ لِمُوٴمِنٍ ولاَ مُوٴْمِنَةٍ اذَا قَضَی اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ أمْرًا أنْ یَکُوْنَ لَہُمُ الْخِیَرَةُ مِنْ أمْرِہِمْ﴾ (الاحزاب:۳۶)
(ترجمہ) اور کسی ایماندار مرد اور کسی ایماندار عورت کو گنجائش نہیں ہے۔ جبکہ اللہ اور اس کا رسول کسی کام کا وجوباً حکم دے دیں کہ (پھر) ان مومنین کو ان کے اس کام میں کوئی اختیار باقی رہے (یعنی اس اختیار کی گنجائش نہیں رہتی کہ خواہ کریں یا نہ کریں۔ بلکہ عمل کرنا ہی واجب ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)
۸- فیصلہٴ نبوی سے انحراف باعث ہلاکت ہے
بات یہیں پوری نہیں ہوجاتی، بلکہ پُرجلال انداز میں ہر سننے والے کے کان کھول دئیے گئے کہ فیصلہ نبوی کے بعد جن لوگوں کو اپنے لئے کسی قسم کی اختیاری گنجائش پیداکرنے کی فکر رہتی ہے، ایسے نافرمان صریح بھٹکے ہوئے ہیں۔
﴿وَمَنْ یَعْصِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہُ فَقَدْ ضَلَّ ضَلاَلاً مُّبِیْنًا﴾ (الاحزاب:۳۶)
(ترجمہ) اور جو شخص اللہ کا اور اسکے رسول کا کہنا نہ مانے گا وہ صریح گمراہی میں پڑا۔
۹- ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے
یہ بھی واضح کردیاگیا، کہ ہدایت صرف اطاعت نبوی میں منحصر ہے۔ اوریہ کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی پیروی کے علاوہ ہدایت کے تمام راستے بند ہیں۔ اس کے ساتھ بتلادیاگیا۔ کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے اوامر سے سرتابی کرنے والے کوتاہ اندیش لوگوں کو اس کے ہولناک نتائج کیلئے تیار رہنا چاہئے۔
﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَأطِیْعُوْا الرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْ فَانَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَا حُمِّلتُمْ وَانْ تُطِیْعُوْہُ تَہْتَدُوا وَمَا عَلی الرَّسُوْلِ الا الْبَلاغُ الْمُبِیْنَ﴾ (النور:۵۴)
(ترجمہ) آپ کہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرو۔ اور رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کرو۔ پھر اگر تم (اطاعت سے) روگردانی کروگے، تو سمجھ رکھو کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے ذمہ وہی (تبلیغ) ہے جس کا ان پر بار رکھا گیا۔اور تمہارے ذمہ وہ ہے جس کا تم پر بار رکھا گیا ہے اور اگر تم نے ان کی اطاعت کرلی، تو راہ پر جالگو اور بہر حال رسول کے ذمہ صاف صاف طور پر پہنچادینا ہے۔
۱۰- مومن اور جذبہٴ سمع وطاعت
واضح کردیاگیا کہ ایمان کا سب سے بڑا نشان آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی دعوت پر لبیک کہنا، آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر حکم پر سمع وطاعت بجالانا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر فیصلہ پر سرتسلیم خم کردینا ہے۔ اور یہ کہ کامرانی اور کامیابی انہیں لوگوں کے قدم چومے گی، جو اپنے اندر یہ ایمانی صفات رکھتے ہوں گے۔
﴿انَّمَا کَانَ قَوْلَ الْمُوٴْمِنِیْنَ اذَا دُعُوآ الَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہِ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ أنْ یَقُوْلُوْا سَمِعْنَا وَأطَعْنَا وَأوْلٰئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ (النور:۵۱)
(ترجمہ) مسلمانوں کا قول تو جبکہ ان کو (کسی مقدمہ میں) اللہ اوراس کے رسول کی طرف بلایا جاتا ہے تاکہ ان کے درمیان فیصلہ کردیں یہ ہے کہ وہ (بطیب خاطر) کہتے ہیں۔ کہ ہم نے سن لیا اور مان لیا اور ایسے لوگ آخرت میں فلاح پائیں گے۔
مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”یعنی ایک سچے مسلمان کا کام یہ ہوتا ہے اور یہ ہونا چاہئے کہ جب کسی معاملے میں ان کو خدا اور رسول کی طرف بلایا جائے۔ خواہ ان میں بظاہر ان کا نفع ہو، یا نقصان ایک منٹ کا توقف نہ کریں۔ فی الفور سمعًا وطاعةً کہہ کر حکم ماننے کے لئے تیار ہوجائیں۔ اس میں ان کی اصلی بھلائی اور حقیقی فلاح کا راز مضمر ہے۔ (تفسیر عثمانی)
۱۱-     گفت او گفتہٴ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
بتلایاگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وعمل وحی الٰہی کا تابع اور منشائے خداوندی کا ترجمان ہے۔ اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ فرماتے ہیں وہ اپنی ذاتی خواہش سے نہیں، بلکہ وحی الٰہی سے فرماتے ہیں۔
﴿وَالنَّجْمِ اذَا ہَوَیٰ، مَا ضَلَّ صَاحِبُکُمْ وَمَا غَوَیٰ وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحَیٰ﴾ (النجم من أولی الی الأربع آیات)
(ترجمہ) ”قسم ہے ستارہ کی جب وہ غروب ہونے لگے۔ یہ تمہارے ساتھ کے رہنے والے (آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم) نہ راہ سے بھٹکے، اور نہ غلط رستے ہوئے اور نہ آپ (صلى الله عليه وسلم) اپنی نفسانی خواہش سے باتیں بناتے ہیں اور ان کا ارشاد نری وحی ہے جو ان پر بھیجی جاتی ہے۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)
پس جس ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) میں ایک لمحہ کے لئے بھی نہ غلط روی کا احتمال ہے اور نہ وحی الٰہی کے خلاف کسی لفظ کے زبان مبارک پر آنے کا اندیشہ ہے، ایسی ذات گرامی (صلی اللہ علیہ وسلم) جس کے ہر قول وفعل پرہمہ دم وحی الٰہی کا پہرا رہتا ہو انصاف کیا جائے...
حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
”آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کو دلائل وبراہین سے محقق کرنے کے بعد خدا تعالیٰ آپ کے متعلق یہ حکم سناتا ہے کہ جو ہمارے رسول صلى الله عليه وسلم کی فرمانبرداری کرے گا وہ بے شک ہمارا تابعدار ہے۔ اور جو اس سے روگردانی کرے گا تو ہم نے تجھ کو اے رسول ان لوگوں پر نگہبان بناکر نہیں بھیجا کہ ان کو گناہ نہ کرنے دے ہم ان کو دیکھ لیں گے تیرا کام صرف پیغام پہنچانا ہے۔ آگے ثواب یا عتاب یہ ہمارا کام ہے۔“
۱۲- اطاعت نبوی کی حقیقت
یہ بھی اعلان کردیاگیا کہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت درحقیقت اللہ تعالیٰ ہی کی اطاعت ہے، اور جو لوگ آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی نہیں سمجھتے وہ اپنی بدفہمی کی وجہ سے کفر کے مرتکب ہیں۔
﴿مَنْ یُطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أطَاعَ اللّٰہَ وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أرْسَلْنَاکَ عَلَیہِمْ حَفِیْظاً﴾ (النساء:۸۰)
ترجمہ: جس شخص نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اطاعت کی، اس نے خدا تعالیٰ کی اطاعت کی۔ اور جو شخص آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے روگردانی کرے سو آپ کچھ غم نہ کیجئے کیونکہ ہم نے آپ کو نگراں کرکے نہیں بھیجا کہ آپ ان کو کفر نہ کرنے دیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)
۱۳- ایک مثالی نمونہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول، علم وعمل، گفتار وکردار، نشست وبرخاست غرضیکہ آپ صلى الله عليه وسلم کی ذات سے صادر ہونے والی ہر چیز سراپا ہدایت ہے اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات عالی کو امت کیلئے بہترین مثالی نمونہ قرار دیاگیا۔
﴿لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِی رَسُوْلِ اللّٰہِ أسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِمَنْ کَانَ یَرْجُوْا اللّٰہَ وَالْیَوْمِ الآخِرِ، وَذَکَرَ اللّٰہَ کَثِیْرًا﴾ (الاحزاب:۲۱)
ترجمہ: تم لوگوں کے لئے یعنی ایسے شخص کے لئے جو اللہ سے اور روز آخرت سے ڈرتا ہو اور کثرت سے ذکر الٰہی کرتا ہو۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔“
اس آیت شریفہ سے معلوم ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی ہر ایسے شخص کے لئے معیاری نمونہ ہے جو اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اور جس کا دل ذکر الٰہی کی کثرت سے منور ہو، برعکس اس کے جو شخص آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مثالی نمونہ نہیں سمجھتا، اور آپ صلى الله عليه وسلم کے اقوال و افعال کو واجب الاطاعت اور لائق اقتدا نہیں سمجھتا اسے نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان ہے۔ نہ آخرت پر۔ اس کا دل ذکر الٰہی کے نور سے محروم ہونے کی وجہ سے ظلمت کدہ ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوئہ حسنہ کا مطلب یہ ہے کہ رسالتماب صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات مبارکہ کو دیکھو۔ سختیوں اور جانگداز حالات میں کیا استقلال رکھتے ہیں۔ حالانکہ سب سے زیادہ اندیشہ اور فکر ان ہی پر ہے مگر مجال ہے کہ پائے استقامت ذرا جنبش کھاجائے۔ جو لوگ اللہ سے ملنے اور آخرت کا ثواب حاصل کرنے کی امید رکھتے ہیں اور کثرت سے خدا کو یاد کرتے ہیں ان کیلئے رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی ذات منبع البرکات بہترین نمونہ ہے۔ چاہئے کہ ہر معاملہ، ہر ایک حرکت و سکون، اور نشست وبرخاست میں ان کے نقش قدم پر چلیں اور ہمت واستقلال وغیرہ میں ان کی چال سیکھیں۔
۱۴- ایک نکتہ
آپ صلى الله عليه وسلم کی اطاعت سے اعتقاداً پہلو تہی کرنے والوں پر صاف صاف کفر کا فتویٰ صادر کیاگیا۔
﴿قُلْ أطِیْعُوا اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَانْ تَوَلَّوْا فَانَّ اللّٰہَ لا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ﴾ (آل عمران:۳۲)
(ترجمہ) آپ فرمادیجئے کہ تم اطاعت کیا کرو۔ اللہ اوراس کے رسول کی۔ پھراگر وہ لوگ اعراض کریں تو سن رکھیں کہ اللہ تعالیٰ کافروں سے محبت نہیں کرتے۔“
۱۵- فیصلہ نبوی سے منحرف ظالم ہے
آپ صلى الله عليه وسلم کے فیصلوں سے اعراض کرنے والوں کو شک و تردد اور نفاق کے مریض، غلط اندیش اور ظالم قرار دیاگیا۔
وَاِذَا دُعُوْآ اِلَی اللّٰہِ وَرَسُوْلِہ لِیَحْکُمَ بَیْنَہُمْ اِذَا فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ مُّعْرِضُوْنَ o وَاِنْ یَّکُن لَّہُمُ الْحَقُّ یَاْتُوْآ اِلَیْہِ مُذْعِنِیْنَ o اَفِیْ قُلُوْبِہِمْ مَرَضٌ اَمِ ارْتَابُوْا اَمْ یَخَافُوْنَ اَن یَّحِیْفَ اللّٰہُ عَلَیْہِمْ وَرَسُوْلُہُ بَلْ اُولٰئِکَ ہُمُ الظّٰلِمُوْنَ. (النور ع۶، آیت ۵۱)
(ترجمہ) ”اور یہ لوگ جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف اس غرض کے لئے بلائے جاتے ہیں کہ رسول ان کے درمیان فیصلہ کردیں تو ان میں ایک گروہ پہلو تہی کرتا ہے۔ اور اگر ان کا حق ہو تو سر تسلیم خم کئے ہوئے آپ کے پاس آتے ہیں۔ آیا ان کے دلوں میں مرض ہے یا یہ شک میں پڑے ہیں یا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول ان پر ظلم نہ کرنے لگیں، نہیں! بلکہ یہ لوگ سراسر ظالم ہیں۔“ (ترجمہ حضرت تھانوی رحمة الله عليه)
۱۶- اتباع رسول صلى الله عليه وسلم سے پہلو تہی منافقانہ عمل ہے
آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع سے انحراف کرنے والوں کو صاف صاف منافق اور ایمان سے عاری قرار دیاگیا۔
﴿وَاِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا الَی مَا أنْزَلَ اللّٰہُ وَالی الرَّسُولِ رأیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا﴾ (النساء:۶۱)
(ترجمہ) اور جب ان سے کہا جاتاہے کہ آؤ اس حکم کی طرف جو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا ہے اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف، تو آپ منافقین کی یہ حالت دیکھیں گے کہ آپ سے پہلو تہی کرتے ہیں۔“
مولانا شبیر احمد عثمانی اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ یعنی جب کسی جھگڑے میں منافقوں سے کہا جائے کہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم نازل فرمایا ہے اس کی طرف آؤ۔ ظاہر میں چونکہ مدعی اسلام ہیں، اس لئے صاف طور پر تو انکار نہیں کرسکتے مگر آپ صلى الله عليه وسلم کے پاس آنے سے اور حکم الٰہی پر چلنے سے بچتے ہیں اور رکتے ہیں کہ کسی ترکیب سے جان بچ جائے۔اور رسول صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر جہاں ہمارا جی چاہے اپنا جھگڑا لے جائیں۔ (ص۱۱۳)
۱۷- ارشادات نبوی سے بے اعتنائی برتنے والے کا حکم
آپ کے پاک ارشادات کے ساتھ بے اعتنائی برتنے والوں اور آپ کے اقوال شریفہ کے ساتھ تمسخر کرنے والوں کے متعلق اعلان کیاگیا کہ ان کے قلوب پر خدائی مہر لگ چکی ہے، جس کی وجہ سے وہ ایمان ویقین اور رشد وہدایات کی استعداد گم کرچکے ہیں اور ان لوگوں کی ساری تگ ودو خواہش نفس کی پیروی تک محدود ہے۔
﴿وَمِنْہُمْ مَنْ یَسْتَمِعْ الَیْکَ حَتّٰی اذَا خَرَجُوْا مِنْ عِنْدِکَ قَالُوْا لِلَّذِیْنَ أوْتُوْا الْعِلْمَ مَاذَا قَالَ آنِفًا. أوْلئک الَّذِیْنَ طَبَعَ اللّٰہُ عَلَی قُلُوْبِہِمْ وَاتَّبَعُوْا أہْوَائَہُمْ﴾ (محمد:۱۶)
(ترجمہ) اور بعض آدمی ایسے ہیں کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی طرف کان لگاتے ہیں، یہاں تک کہ جب وہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے اٹھ کر باہر جاتے ہیں تو دوسرے اہل علم سے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کی تحقیر کے طور پر) کہتے ہیں کہ حضرت نے ابھی کیا بات فرمائی تھی؟ یہ وہ لوگ ہیں کہ حق تعالیٰ نے ان کے دلوں پر مہر کردی، اور وہ اپنی نفسانی خواہشوں پر چلتے ہیں۔ (ترجمہ حضرت تھانوی بتصرف یسیر)
۱۸- اسلامی دستور کا دوسرا مآخذ احادیث نبوی ہیں
قرآن کریم نے صاف صاف یہ اعلان بھی کردیا کہ انبیاء کرام علیہم السلام کو صرف اسی مقصد کیلئے بھیجا جاتا ہے کہ ان کی اطاعت کی جائے۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے انکار اور آپ کے ارشادات سے سرتابی کرنا گویا انکار رسالت کے ہم معنی ہے۔ اس طرح آپ کی اطاعت کے منکرین انکار رسالت کے مرتکب ہیں۔
﴿وَمَا أرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ الاَّ لِیُطَاعَ بِاذْنِ اللّٰہِ﴾ (النساء:۶۴)
(ترجمہ) اور ہم نے تمام پیغمبروں کو خاص اسی واسطے مبعوث فرمایا ہے کہ بحکم خداوندی ان کی اطاعت کی جائے۔“
قرآن کریم کی وہ آیات جن میںآ نحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو اہل ایمان کے لئے لازم قرار دیاگیا ہے، بے شمار ہیں۔ ان میں سے یہ چند آیات آپ کے سامنے ہیں۔ کتاب اللہ کے ان واضح اعلانات کی روشنی میں یہ فیصلہ بالکل آسان ہے، کہ اسلام میں ذات اقدس رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا مرتبہ کیا ہے؟ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال وافعال کی اطاعت اور پیروی کا حکم خود قرآن ہی میں موجود ہے اور جب قرآن کریم ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی قرار دیتا ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال کو جب قرآن ہی وحی خداوندی بتلاتا ہے (وَمَا یَنْطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ انْ ہُوَ الاَّ وَحْیٌ یُوْحٰی اور آپ صلى الله عليه وسلم کے کلمات طیبات کو جب قرآن ہی ”گفتہ او گفتہ اللہ بود“ کا مرتبہ دیتا ہے تو بتلایا جائے کہ حدیث نبوی کے حجت دینیہ ہونے میں کیا کسی شک وشبہ کی گنجائش رہ جاتی ہے؟ اور کیا حدیث نبوی کا انکار کرنے سے کیا خود قرآن ہی کا انکار لازم نہیں آئے گا؟ اور کیا فیصلہ نبوت میں تبدیلی کے معنی خود قرآن کو بدل ڈالنا نہیں ہوں گے۔ اور اس پر بھی غور کرنا چاہئے کہ قرآن کریم بھی تو امت نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی زبان مبارک سے سنا، اور سن کر اس پر ایمان لائے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ ”یہ قرآن ہے“ یہ ارشاد بھی تو حدیث نبوی ہے۔ اگر حدیث نبوی حجت نہیں تو قرآن کریم کا قرآن ہونا کس طرح ثابت ہوگا۔ آخر یہ کونسی عقل ودانش کی بات ہے کہ اس مقدس ومعصوم زبان سے صادر ہونے والی ایک بات تو واجب التسلیم ہو اور دوسری نہ ہو؟
امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاری رحمة الله عليه نے ایک موقع پر فرمایاتھا:
”یہ تو میرے میاں (صلی اللہ علیہ وسلم) کا کمال تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہے۔ اور یہ میراکلام ہے، ورنہ ہم نے تو دونوں کو ایک ہی زبان سے صادر ہوتے ہوئے سنا تھا۔“
جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ قرآن تو حجت ہے مگر حدیث حجت نہیں ہے ان ظالموں کو کون بتلائے کہ جس طرح ایمان کے معاملہ میں خدا اور سول کے درمیان تفریق نہیں ہوسکتی کہ ایک کومانا جائے اور دوسرے کو نہ مانا جائے۔ ایک کو تسلیم کرلیجئے تو دوسرے کو بہرصورت تسلیم کرنا ہوگا اور ان میں سے ایک کا انکار کردینے سے دوسرے کا انکار آپ سے آپ ہوجائے گا۔ خدائی غیرت گوارا نہیں کرتی کہ اس کے کلام کو تسلیم کرنے کا دعویٰ کیا جائے اوراس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کو ٹھکرایا جائے۔ وہ ایسے ظالموں کے خلاف صاف اعلان کرتا ہے۔
فَاِنَّہُمْ لاَ یُکَذِّبُوْنَکَ وَلٰکِنَّ الظّٰلِمِیْنَ بِاٰیٰتِ اللّٰہ یَجْحَدُوْنَ.
(ترجمہ) ”پس اے نبی ! یہ لوگ آپ کے کلام کو نہیں ٹھکراتے بلکہ یہ ظالم اللہ کی آیتوں کے منکر ہیں۔“
لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھنے والے اور کلام اللہ کو ماننے کا دعویٰ کرتے ہیں انہیں لامحالہ رسول اور کلام رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لانا ہوگا۔ ورنہ ان کا دعویٰ ایمان حرف باطل ہے۔

(۲) مرتبہ حدیث خود صاحب حدیث کی نظر میں
”حدیث نبوی .... حجت ہے یا نہیں؟“ اس نزاع کا جو فیصلہ قرآن کریم نے فرمایا ہے وہ مختلف عنوانات کے تحت آپ کے سامنے آچکا ہے، آئیے اب یہ دیکھیں کہ خود صاحب حدیث صلى الله عليه وسلم نے اپنی احادیث مبارکہ اور اپنے ارشادات طیبہ کے حجت ہونے یا نہ ہونے کے بارے میں کیا فیصلہ فرمایا ہے؟
یہ تو ظاہر ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ذات گرامی امت کے تمام نزاعی امور کا فیصلہ کرنے کے لئے آخری عدالت ہے۔ آپ صلى الله عليه وسلم کے ہر فیصلہ پر دل وجان سے راضی ہوجانا معیار ایمان ہے، اور قرآن کریم کا حلفیہ بیان ہے کہ جو لوگ آپ صلى الله عليه وسلم کے فیصلہ پر راضی نہ ہوں اوراس کے لئے سر تسلیم خم نہ کریں وہ ایمان سے محروم ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہے۔
فَلاَ وَرَبِّکَ لاَ یُوٴْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَہُمْ ثُمَّ لاَ یَجِدُوْا فِی اَنْفُسِہِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا. (النساء، آیت۶۵)
ترجمہ: ”سو قسم ہے تیرے رب کی وہ مومن نہ ہوں گے یہاں تک کہ تجھ کو ہی منصف جانیں، اس جھگڑے میں جو ان میں اٹھے، پھرنہ پاویں اپنے دل میں تنگی تیرے فیصلہ سے اور قبول کریں خوشی سے۔“
جب قرآن کریم نے امت کے تمام جھگڑوں کو نمٹانے کے لئے آنحضرت صلى الله عليه وسلم کو منصف قرار دیا ہے تو لازم ہے کہ آں حضرت صلى الله عليه وسلم ہی سے اس کا فیصلہ لے لیا جائے کہ آپ صلى الله عليه وسلم کے لائے ہوئے دین میں آپ صلى الله عليه وسلم کی احادیث کا کیا مرتبہ ہے؟ آپ کے فیصلہ کے بعد کسی قسم کی کٹ حجتی کی ضرورت نہ رہے گی۔ آیات بینات کے بعد اب فیصلہ نبوت سنئے۔
(۱) پوری امت کو مخاطب کرکے فرمایاجاتا ہے کہ ایسا شخص ایمان سے محروم ہے جس کی خواہشات نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی لائی ہوئی ہر چیز سے ہم آہنگ نہیں ہوجاتیں۔
”عن عبد اللّٰہ بن عمرو رضی اللہ عنہما عن النبیِّ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال: ولا یوٴمن أحدُکُمْ حتّٰی یکونَ ہواہُ تَبَعًا لما جئتُ بہِ“ (رواہ فی الشرح السنہ وقال النووی فی اربعینہ ہذا حدیث صحیح رویناہ فی کتاب الحجة باسناد صحیح مشکوٰة ص:۳۰)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ایماندار نہیں ہوسکتا جب تک کہ اس کی خواہشات اس (شریعت) کے تابع نہیں ہوجاتیں جس کو میں لے کر آیا ہوں۔“ (مشکوٰة:۳۰)
(۲) نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی سنت کے تارک اور آپ کے اوامر کی اقتداء نہ کرنے والے ناخلف دروغ گو اور غلط کار ہیں اور جو شخص ان کے ساتھ ”ہاتھ“ زبان یادل کے ساتھ جہاد نہیں کرتا وہ بھی ذرہ ایمان سے محروم ہے۔
”عن ابنِ مَسْعودٍ رَضی اللہ عَنْہُ قال قال رسولُ اللّٰہِ ما مِنْ نَبیٍ بَعَثہ اللّٰہُ فِیْ أمتہِ قَبلی الا کَانَ لَہُ فی أمتہ حَوارِیُونَ وأصحابٍ یأخُذُون بِسُنتِہ ویقتدون بأمرِہِ، ثُمَّ انَّہا تخلُف مِن بَعْدِہم خُلُوفٌ یقُولُونَ ما لا یَفْعَلُوْنَ ویفعلُونَ ما لا یُوٴمَرُونَ فَمَن جَاہَدہُمْ بِیَدہ فَہُو مُوٴْمِنٌ ومَن جَاہَدَہم بِلِسانِہِ فہُو مُوٴْمِنٌ ومَن جَاہَدَہم بِقلبِہِ فَہُو مُوٴْمِنٌ ولیس وراء ذلِکَ مِن الایمان حبَةُ خردلٍ“ (رواہ مسلم)
ترجمہ: ”عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا کہ مجھ سے پہلے جس نبی کو بھی اللہ تعالیٰ نے بھیجا اس کی امت میں ضرور ایسے خاص لوگ اس کے دین کے مددگار رہا کئے جو اس کی سنت پر عمل پیراہوتے اور اس کے حکم کی اقتداء کرتے۔ پھر ان کے بعدایسے ناخلف پیداہوئے جو ایسی باتیں کہتے جن پر عمل نہ کرتے اور ایسے افعال کرتے جن کا ان کو حکم نہیں دیاگیا (یہی اس امت میں ہوگا) پس جو شخص ان لوگوں کے ساتھ ہاتھ سے جہاد کرے وہ مومن ہے اور جو ان کے ساتھ دل سے جہاد کرے وہ بھی مومن ہے اس کے علاوہ ایمان کا ذرہ نہیں۔“ (مشکوٰة ص:۲۹ بروایت صحیح مسلم)
(۳) سنت نبویہ (صلى الله عليه وسلم) سے اعراض کرنے والوں کا ذات نبوی صلى الله عليه وسلم سے کوئی تعلق نہیں۔
”عن أنسٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِی صلی اللّٰہ علیہ وسلم (فی حدیثٍ فیہِ قِصةٌ) فَمَن رَغِبَ عَن سُنّتِی فَلیس منی“ (متفق علیہ)
ترجمہ:”حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: ”جس نے میری سنت سے بے رغبتی کی وہ مجھ سے نہیں۔“ (بخاری ومسلم)
(۴) انکار حدیث کا نعرہ لگانے والے دجال اور کذاب ہیں۔
”عن أبی ہریرة رضی اللّٰہ عنہ قال قال رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: یکونُ فی آخرِ الزمان دجّالُونَ کَذَّابُونَ یأتُوْنَکُمْ مِن الأحادیث ما لم یَسمَعُوْا أنتُمْ ولا آبائکم فایاکُمْ لا یضِلّوْنَکُمْ ولا یفتِنُونَکُمْ“(رواہ مسلم)
ترجمہ: ”حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا: آخری زمانہ میں ایسے ایسے دجال اور کذاب ہوں گے جو تمہیں ایسی ایسی باتیں سنائیں گے جو نہ تم نے کبھی سنی ہوں گی نہ تمہارے باپ دادا نے۔ پس ان سے بچو، ایسا نہ ہو کہ تمہیں گمراہ کردیں یا فتنہ میں ڈال دیں“۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو لوگ ایسے نظریات پیش کرتے ہیں جوامت کی گذشتہ صدیوں میں کبھی نہیں سنے گئے وہ دجال وکذاب ہیں انکار حدیث کا نظریہ بھی اسی قسم کا ہے۔
(۵) انکار حدیث کا منشاء شکم سیری،ہوا پرستی اور گندم خوری کے سوا کچھ نہیں۔
”عن المقدام بن معدیکرب رضی اللہ عنہ قال قال رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم: ألا انی اُوتیتُ القرآن ومِثْلَہُ ألا یوشک رجلٌ شبعان علی أریکتہ یقول علیکم بِہذا القُرآن فَمَا وَجَدْتُمْ ... فیہ مِنْ حلالٍ فاحلُوہ وما وَجَدْتُمْ فیہ منْ حرامٍ فحَرِمُوہ وأن ما حَرم رَسُولُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم کما حرم اللّٰہ“ الحدیث. (رواہ ابوداود، دارمی، ابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”مقدام بن معدی کرب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔ سن رکھو! مجھے قرآن بھی دیاگیا اور قرآن کے ساتھ اس کے مثل بھی، سن رکھو! قریب ہے کہ کوئی پیٹ بھرا تکیہ لگائے ہوئے یہ کہنے لگے کہ لوگوں! تمہیں یہ قرآن کافی ہے بس جو چیز اس میں حلال ملے اسی کو حلال سمجھو! حالانکہ اللہ کے رسول کی حرام بتلائی ہوئی چیزیں بھی ویسی ہیں جیسی اللہ تعالیٰ کی حرام بتلائی ہوئی۔“
(۶) جب امت میں اختلاف رونما ہوجائے اور ہر فرقہ اپنی تائید قرآن سے ثابت کرنے لگے اس وقت سنت نبوی کو لازم پکڑنا اور قرآنی مطالب کے افہام وتفہیم میں اسوئہ نبوت کو فیصل قرار دینا ہی اصل منشاء دین ہے۔ ایسے نازک وقت میں حدیث نبوی سے دست کشی گمراہی کا پہلا زینہ ہے۔ اورنئے نظریات اوراعمال کااختراع کج روی کا سنگ بنیاد ہے۔
”عن العرباض بن ساریة رضی اللّٰہ عنہ قال صَلّی بنا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ وسلم ذاتَ یومٍ ثُمَّ أقْبَلَ علینَا بوجہِہِ فَوَعظَنا مَوْعِظَةً بلیغة ذَرَفَتْ مِنْہا العیون، ووَجَلَتْ مِنْہا القلوب، - فقال رَجُلٌ یا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلى الله عليه وسلم  کَأنّ ہذِہِ مَوْعِظَة مُوَدَّع فَأوصنا - فقال أوصِیکُمْ بتَقوَی اللّٰہ والسَمع والطاعَة، وان کان عبدًا حبشیًا“ (رواہ أحمد، وأبوداود والترمذی، مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ایک دن ہمیں نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے۔ پس ہمیں بہت ہی موثر وعظ فرمایا۔ جس سے آنکھیں بہہ پڑیں، اور دل کانپ گئے۔ آپ سے ایک شخص نے کہا یا رسول اللہ یہ تو ایسالگتا ہے، جیسے کسی رخصت کرنے والے کی نصیحت ہو۔ پس ہمیں وصیت فرمائیے۔ فرمایا ... کہ میں تم کو وصیت کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنا اور اپنے حکام کی بات سننا اور ماننا خواہ حاکم حبشی غلام ہو۔“
(۷) حدیث جیسے بدیہی اور اجماعی مسائل میں نزاع اور جدال پیدا کرنے والے ہدایت چھوڑکر راہ ضلالت اختیار کئے ہوئے ہیں۔
”عن أبی أمامة رضی اللّٰہ عَنہُ قال قال رسولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم ما ضل قوم بعد ہُدًی کانوا علیہ الا أوتُوا الجدل، ثُمّ قرأ رسولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم مَا ضَرَبُوہ لک الا جدَلا، بل ہُمْ قومٌ خَصِمُوْن“ (رواہ أحمد، وأبو داود والترمذی)
ترجمہ: ”حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہادی اعظم صلى الله عليه وسلم کا ارشاد ہے۔ جب بھی کوئی قوم ہدایت کھوکر گمراہ ہوجاتی ہے۔انہیں جھگڑا دے دیا جاتا ہے (پھر وہ ایسے واضح مسائل میں بھی جھگڑتے ہیں، جن میں نہ کبھی نزاع کی نوبت آئی اور نہ عقل سلیم ایسے امور میں بحثا بحثی کا تصور کرسکتی ہے۔“
(۸) زہر ضلالت کیلئے اسوہ نبوت تریاق اعظم ہے جب تک کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول صلى الله عليه وسلم کو دینی سند کی حیثیت سے تسلیم کیاجاتا رہے گا۔ امت گمراہی سے محفوظ رہے گی، لیکن جونہی کتاب وسنت میں تفریق کی جانے لگے گی اورامت کی آوارہ مزاجی کتاب اللہ کے ساتھ سنت رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کی اتباع کو بار دوش تصور کرنے لگے گی، اس وقت امت قعر ضلالت میں جاگرے گی۔
”عن مالِک بن أنسٍ قال قال النبی صلى الله عليه وسلم ترکتُ فیکم أمرین لَنْ تضلّوا ما تَمَسکتُمْ بِہِما، کتابُ اللّٰہِ وَسُنةُ رسُوْلِہ“ (رواہ فی الموطأ)
ترجمہ: ”امام مالک نے مرسلاً روایت کیا ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔ میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جاتا ہوں جب تک ان دونوں کا دامن مضبوطی سے تھامے رہوگے ہرگز گمراہ نہ ہوگے۔ (۱) کتاب اللہ (۲) سنت رسول اللہ۔
(۹) آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی تشریف آوری کے بعد کسی شخص کیلئے بھی یہ گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ وہ آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع سے انحراف کرے۔ حتی کہ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی آپ صلى الله عليه وسلم کی اتباع کے بغیر چارہ کار نہ ہوتا۔
”عن جابرٍ رضی اللّٰہ عنہ عن النبی صلى الله عليه وسلم لَوْ کَانَ مُوْسٰی حیًّا مَا وَسِعَہ الا اتباعی“ (رواہ أحمد، والبیہقی، مشکوٰة ص:۳۰)
ترجمہ: ”حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خاتم النّبیین صلى الله عليه وسلم نے فرمایا۔ اگر موسیٰ علیہ السلام بھی زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری اتباع کے بغیر چارہ نہ ہوتا۔“
”وفی روایةٍ: والذی نفسُ محمد صلى الله عليه وسلم بیدہِ لو بدأ لکم موسٰی فاتبعتُمُوہ وترکتمونی لضلَلتُم عَنْ سواء السبیل وَلو کان موسٰی حیًّا وأدرکَ نبوتی لاتبعنی“ (رواہ الدارمی، مشکوٰة ص:۳۲)
ترجمہ: ”اور ایک روایت میں اس طرح ہے کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد صلى الله عليه وسلم کی جان ہے۔ اگر وہ (یعنی موسیٰ علیہ السلام) تمہارے سامنے ظاہر ہوجائیں پس تم ان کی اتباع کرو اور مجھے چھوڑ دو تو تم راہ راست سے قطعاً بھٹک جاؤگے، اگر موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پالیتے تو بالضرور وہ میری ہی پیروی کرتے۔“ (دارمی، مشکوٰة: ۳۳)
(۱۰) آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی حدیث پوری طرح محفوظ کرنے اور امانت نبوت دوسروں تک پہنچانے والے بارگاہ نبوت سے تازہ روئی کی دعاؤں کے مستحق ہیں۔
”عن ابن مسعودٍ رضی اللہ عَنہ قال قال رسُولُ اللّٰہ صلى الله عليه وسلم نَضّرَ اللّٰہُ عَبدًا سَمعَ مقالتِی فَحَفظہا ووعاہا فأدّاہا“ (رواہ أحمد، والترمذی وأبوداود وابن ماجہ، مشکوٰة ص:۲۹)
ترجمہ: ”حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس بندے کو خوش وخرم رکھے، جس نے میری حدیث سنی اور اسے یاد کیا اور محفوظ رکھا۔ پھرجیسی سنی تھی، ٹھیک ٹھیک ادا کردی۔“
اور امام احمد، ترمذی، ابوداؤد، ابن ماجہ اور دارمی نے یہ حدیث حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے (یہ تمام احادیث مشکوٰة شریف میں ہیں)
خدا تعالیٰ اوراس کے رسول صلى الله عليه وسلم کی شہادت آپ کے سامنے ہے۔ ان دو شاہدوں کی شہادت کے بعد اہل ایمان کے لئے شک اور تردد کی گنجائش ظاہر ہے کہ باقی نہیں رہ جاتی۔ البتہ جن سے ایمان کی دولت ہی کو سلب کرلیا گیا ہو، کس کے اختیار میں ہے کہ ان کو تشکیک کے روگ سے نجات دلاسکے اور کونسا سامان ہدایت ہے جو ان کیلئے سود مند ہوسکے۔ ”فَمَا تغنِ الآیات والنُذر عن قومٍ لا یوٴمِنون“ (جن کو ایمان نہیں لانا ہے ان کیلئے نہ کوئی آیت سود مند ہوسکتی ہے نہ کوئی ڈرسنانے والے)۔
سلامت طبع کے ساتھ قرآن پڑھنے والا حیران رہ جاتا ہے کہ اسی قرآن کا حوالہ دے کر بتلانے والے لوگوں کو یہ بتلاتے ہیں کہ:
”یہ تصور قرآن کی بنیادی تعلیم کے منافی ہے کہ اطاعت اللہ کے سوا کسی اور کی بھی ہوسکتی ہے حتی کہ خود رسول (بغیر صلوٰة وسلام) کے متعلق واضح اور غیر مبہم الفاظ میں بتلادیا، کہ اسے بھی قطعاً یہ حق حاصل نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔ (معارف القرآن از پرویز)
مسلمانوں کے ہاتھ جو قرآن ہے اس کی بنیادی تعلیم اوپر معلوم ہوچکی ہے،جس میں بار بار اطاعت رسول (صلى الله عليه وسلم) پر زور دیاگیا ہے، سوال یہ ہے کہ آخر وہ کونسا قرآن ہے جس کی بنیادی تعلیم اطاعت رسول صلى الله عليه وسلم کے منافی ہے اور قرآن کے وہ کونسے واضح اور غیرمبہم الفاظ ہیں جن میں آنحضرت صلى الله عليه وسلم سے اطاعت کا حق سلب کیاگیا ہے۔ قرآن کی جو آیات اوپر نقل کی گئی ہیں ایک دفعہ انہیں پھر سے بار بار پڑھ لیجئے اور ان کے ساتھ مسٹرپرویز کی مندرجہ بالا عبارت کو ملائیے اور پھر فیصلہ کیجئے کہ اس سے بڑھ کر افتراء علی اللہ کبھی کیاگیا؟
قرآن حکیم بتاتا ہے کہ نبی کی بعثت کا مقصد ہی یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے۔ قرآن کا نام چرانے والے مفتری اعلان کرتے ہیں کہ
”رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی قطعاً حق حاصل نہیں کہ لوگوں سے اپنی اطاعت کرائے۔“
قرآن کریم نبی کریم صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کو عین اطاعت خداوندی قرار دیتا ہے اور آپ صلى الله عليه وسلم کے حکم سے اعراض کرنے والوں کو منافق قرار دیتا ہے لیکن قرآن کا نام بدنام کرنے والے منافق لوگوں کو بتلاتے ہیں کہ۔
”اسے (نبی کو) بھی کوئی حق حاصل نہیں کہ ”کسی سے اپنی اطاعت کرائے“۔ بہرکیف قرآن کی آیات آپ کے سامنے ہیں۔ ان کو پڑھ کر فیصلہ کیجئے کہ کیا یہی قرآن رسول اقدس صلى الله عليه وسلم سے اطاعت کا حق چھین سکتا ہے؟ جس کی صدہا آیات میں بار بار حلفی تاکیدات کے ساتھ اطاعت رسول صلى الله عليه وسلم کا مطالبہ کیاگیا ہے۔“
دنیا کی جس گمراہی پر غور کروگے، اس کا آخری نقطہ اس قدر کج در کج اور پیچ در پیچ ہوگا جس سے عقل سلیم نفرت کرے گی اورجسے ثابت کرنے کیلئے زمین و آسمان کے ہزاروں قلابے ملائے جائیں گے، تاہم عقل صحیح اسے ہدایت کی ادنیٰ ٹھوکر سے ٹھکرائے گی۔
فتنہ انکار حدیث نے کس قسم کے ہذیانات اور خرافات کو جنم دیا اس کی تفصیل تو شاید کسی دوسری جگہ آئے گی، لیکن ایک خرافاتی معمہ کا تذکرہ یہاں بھی کرہی دینا چاہئے۔
مطلب یہ کہ ایک طرف آپ ان کج طبع اور خام عقل لوگوں سے سنیں گے کہ وہ صاحب وحی صلى الله عليه وسلم سے قرآن کا بیان کردہ ”حق اطاعت“ چھین لیتے ہیں۔ لیکن اسی کے ساتھ اطاعت کا یہی حق وہ ”مرکز ملت“ کے نام سے حکومت وقت کو دے ڈالتے ہیں۔ ایک طرف یہ چاہا جاتا ہے کہ پوری امت کا رشتہٴ اطاعت اس کے نبی صلى الله عليه وسلم سے کاٹ دیا جائے۔ دوسری طرف ایڑی چوٹی کا زور لاگیا جاتا ہے کہ ہر سکندر و دارا کو اللہ اور رسول مان کر اس کے سامنے سرنیاز خم کردو۔ ایک جانب رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو پیغام رسانی کے بعد منصب رسالت سے معزول کردیا جاتا ہے۔ دوسری جانب بتلایا جاتا ہے (اور قلم کو تاب نہیں کہ اسے آسانی سے نقل کرنے پر آمادہ ہو) کہ۔
”قرآن حکیم میں جہاں اللہ ورسول کا ذکر آیا ہے اس سے مراد مرکز نظام حکومت ہے۔“ (معارف القرآن از پرویز)
استغفراللہ ایک طرف اللہ تعالیٰ سے اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم سے عداوت ودشمنی کا یہ عالم کہ آنحضرت صلى الله عليه وسلم کی ایک بات کا ماننا بھی گوارا نہیں کیا جاتا، دوسری طرف طاغوت کے ساتھ دوستی کا یہ حال کہ ہر ڈکٹیٹر کو خدائی اور رسالت کا منصب تفویض کیا جاتا ہے،اور اصرار کیا جاتا ہے کہ قرآن کریم میں جہاں کہیں ”اللہ ورسول“ کا لفظ دیکھو اس سے مراد صدر مملکت سمجھو، اور سچے خدا اور سچے رسول صلى الله عليه وسلم کو چھوڑ کر ہر چڑھتے سورج کی پوجا کرو۔ اسکندر مرزا ہو یا غلام محمد، ناظم الدین ہو یا ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو صدر ضیاء الحق، جونیجو یا بینظیر، جو بھی کرسی نشین اقتدار ہو، اسی کو اللہ اور رسول سمجھو! اسی کے سامنے ڈنڈوت بجالاؤ۔ اور چند ٹکے سیدھے کرنے کے لئے اللہ ورسول سے اطاعت چھین کر برسراقتدار قوت کو دے ڈالو۔ ولا حَولَ ولا قُوة الا باللّٰہِ ستم یہ کہ اگرایسا نہ کروگے تو نہ ”اسلام طلوع“ ہوگا، نہ قرآنی ربوبیت منظر عام پر آئے گی بلکہ اسلام عجمی سازش کا شکار رہے گا۔
تفو بر تو اے چرخ گرداں تفو!
کیا اس سے زیادہ کجی اور زیغ پن کی مثال دنیا کی تاریخ پیش کرسکتی ہے؟
انکار حدیث کوئی علمی تحریک نہیں۔ یہ جہالت کا پلندہ ہے۔ اس کا اصل منشا صرف یہی ہے کہ اب تک ایک ہی خدا کی عبادت اور ایک رسول صلى الله عليه وسلم کی اطاعت کی جاتی تھی۔ لیکن اس نام نہاد ترقی یافتہ دور کے تعلیم یافتہ آزروں کو ہر روز نیا خدا چاہئے، جس کی وہ پوجا کیاکریں، اور ہر بار نیا رسول ہونا چاہئے جو ان کے لئے نظام ربوبیت کی قانون سازی کیا کرے؟ خدا کا غضب ہے کہ پڑھے لکھے لوگوں کو یہ بتایا جاتا ہے کہ اللہ و رسول سے مراد ”مرکز ملت“ ہے لیکن ان میں کسی کو بھی اس کے سننے سے قے نہیں آتی۔
کیاکوئی ذی شعور تسلیم کرے گا کہ ”اللہ“ ذات پاک کا نام نہیں بلکہ اس سے مراد ”مرکز ملت“ ہے اور ”الرسول“ کالفظ جو قرآن میں بار بار آتا ہے اس سے مراد ”محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم“ نہیں بلکہ اس سے مراد حکمرانوں کی وہ ٹولی ہے جو اپنے پاس سے قانون گھڑ گھڑ کر قرآن کے نام چسپاں کیا کرے؟
﴿فویلٌ لِلذِیْنَ یکْتُبونَ الکِتابَ بأیدیہم ثُم یقُولُونَ ہذا مِن عِند اللّٰہ﴾
اب تک دنیا کے عقلاء یہی بتلاتے رہے کہ اعلام شخصیہ میں شرکت جائز نہیں۔ یعنی زید جس خاص شخص کا نام رکھا گیا ہے لفظ زید جس وقت کان میں پڑے گا تو ذہن صرف اسی شخص کی طرف منتقل ہوگا جس کا یہ نام رکھا گیا لیکن دوسروں کو ”ملائیت اور دقیانوسیت کا طعنہ دینے والے پیران نابالغ آج بتلاتے ہیں کہ لفظ ”اللہ“ یا ”الرسول“ جس ذات خاص کا نام ہے اس سے وہ ذات خاص مراد نہیں بلکہ قرآن میں جہاں بھی یہ لفظ آیا ہے اس سے مراد صدر مملکت ہے جسے ہر پانچ سال بعد تبدیل کیا جاسکتا ہے کیا اس منطق کو سمجھنے کے لئے کچھ زیادہ عقل وفہم کی ضرورت ہے؟
عقل سوخت زحیرت کہ چہ بوالعجبی است
ماں، باپ، بہن، بھائی، بیوی، بچوں کے مفہوم میں یہ تمام کجروی اختیار نہیں کی جاتی۔ لیکن اللہ رسول کے مفہوم میں عقل وفہم کے علی الرغم یہ کجی ”مرکز ملت“ کی تائید کے ساتھ کی جاتی ہے۔ اور ماننے والے پوری ”دانائی“ کے ساتھ اسی کو مانتے چلے جارہے ہیں جن مسکینوں کا اللہ و رسول ہی صنم اقتدار ہو جس کو مرکز ملت کہتے ہیں اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ان کے دین وایمان علم وعقل اور فہم ودانش کا حدود اربعہ کیا ہے؟ نیز بیچارے ”قرآن“ کے ساتھ ان کو کیا علاقہ ہے۔ جس کی آیتیں پڑھ پڑھ کر چودہ صدسالہ امت کو عجمی سازش کا شکارقرار دیا جاتاہے۔
”فکر ونظر“ کی کجی سے خدا کی پناہ! اتنی صاف، سادہ اور ستھری حقیقت کو ان فتنہ گروں کا ذہن قبول نہیں کرتا کہ چونکہ محمد رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کو قرآن کے نازل کرنے والے کی جانب سے اس کی توضیح وتشریح کا حق بھی عطا کیاگیا ہے۔ ”لتبین للناس ما نزل الیہم“ اور جو لوگ محمد صلى الله عليه وسلم کے امتی کہلاتے ہیں ان کیلئے لازم قرار دیاگیا ہے کہ وہ قرآن کریم کو اپنے نبی (صلى الله عليه وسلم) کی شرح وبیان کے ساتھ سمجھیں، پڑھیں اور عمل کریں۔ اس لئے قرآن کے ماننے والوں کو لازم ہے کہ قرآن کی وہ علمی اور عملی تشریحات جو قرآن لانے والے کی جانب سے پیش کی گئی ہیں ان کو بھی قبول کریں۔ اور قرآن کی کوئی ایسی شرح ایجاد نہ کریں جو صاحب قرآن کی پیش کردہ تعلیمات سے ٹکراجائے یہ بات کتنی صاف اور سیدھی ہے لیکن ان کے لئے ناقابل قبول ہے۔ اوراس کے برعکس بالکل ٹیڑھی، ترش اور کج در کج بات کہ
”قرآن میں جہاں کہیں اللہ ورسول کا نام آیا ہے۔ اس سے مراد مرکز نظام حکومت ہے“۔ اسی کو ان کے کج دماغ اورمبتلائے فتنہ ذہن قبول کئے جارہے ہیں۔
نعوذ باللّٰہ من فتنة الصدور وسیعلمون الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون.
ان ظالموں کو بہت جلد معلوم ہوجائے گا کہ وہ لوٹنے کے لئے کس جگہ لوٹ کر جاتے ہیں۔

(۳) عہدصحابہ رضی اللہ عنہم میں حدیث کا مقام
قرآن وحدیث کے بعد ہمارے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل ہے۔ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے حالات پر صحیح غور وفکر کا جن لوگوں کو موقع ملا ہے۔ ان کو معلوم ہے کہ حضرات صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی سیرت کا ایک ایک باب اخلاص وانقیاد اور اتباع وامتثال کا حسین مرقع ہے۔ ان کی ہر ادا سے اتباع نبوی کی شان ٹپکتی ہے۔ ان کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیض صحبت سے مشرف ہی اس لئے کیاگیا تھا تاکہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق وعادات، عبادات ومعاملات اور آپ کے اسوئہ حسنہ کو اپنی ذات میں جذب کرکے حسب استعداد آپ کے رنگ میں رنگین ہوجائیں اور بعد میں آنے والی امت کو اس رنگ میں رنگین کرتے چلے جائیں۔
معلّم انسانیت (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ان بلاواسطہ شاگردوں کے متعلق یہ تصور کرنا کتنا گندا اور مکروہ ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات اور احادیث کو کوئی مرتبہ نہ دیتے تھے۔ العیاذ باللہ، کج ذہنی اور خام عقلی کی حد ہے کہ تلاش کرنے والے اسی ذخیرہ حدیث سے جو سب کا سب صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین سے مروی ہے۔ آج ایسی روایات تلاش کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں۔ جن سے ثابت کیا جائے کہ معاذ اللہ صحابہ کرام حدیث نبوی کے دشمن، تعلیم نبوت کے مخالف اور سنت رسول کے مٹانے والے تھے۔ تعجب عقل وفہم کے ان مریضوں پر نہیں، بلکہ حیف ان نادانوں پر ہے جو ان دیوانوں کے ہذیانات پر وحی الٰہی کی طرح ایمان لاتے چلے جاتے ہیں۔
”دیوانہ گفت آبلہ باور کرد“
کیا کسی کی عقل باور کرسکتی ہے کہ جس امی قوم میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو الرسول کی حیثیت سے کھڑا کیاگیا تھا اسی قوم میں سے جن حضرات کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے کی توفیق دی گئی، آپ کی خدمت کے لئے جن کو چن لیا گیا، آپ کی حمایت اور نصرت کے لئے جن کو اٹھایاگیا اور آپ پر مرمٹنے ہی کے لئے جن کو آپ کے زمانہ میں پیدا کیاگیا، کیا وہ دنیا میں لائے ہی اس لئے گئے تھے کہ آپ کے تشریف لے جانے کے بعد آپ کی ایک ایک سنت کو مٹاڈالیں۔ آپ کی سیرت کا ایک ایک ورق دھوڈالیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل علم وعمل، سیرت وکردار، اخلاق وعادات اور قضایا واحکام میں سے ایک ایک کو بدل ڈالیں۔ کتابیں پڑھنے اور پڑھ پڑھ کر خدا کی مخلوق کو گمراہ کردیں اور صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی زندگی میں انکار حدیث کی روایات تلاش کرنے سے پہلے کیا اتنی عقل سے کام لینا ضروری نہیں تھا کہ صحابہ کرام کو صحابہ بنایا کس مقصد کے لئے گیا تھا اور بعد میں آنے والے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں جو پیدا نہیں کیاگیا اس میں کیا حکمت ہے۔
جن نفوس قدسیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کے لئے منتخب کیاگیا، مسلسل تیئس سال تک امتحان اور آزمائش کی بھٹی میں جن کو نکھارا گیا، جن کو تعلیم وتربیت، تزکیہ وتطہیر، اصلاح و تکمیل کیلئے عالم انسانیت کے سب سے بڑے معلّم، سب سے بڑے مصلح صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد کیاگیا، خداوند قدوس کے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی آخری شریعت کا سب سے پہلا امین اور محافظ جن کو بنایاگیا اور طویل مدت تک اسوئہ حسنہ کا رنگ جن کی زندگی کے ہر خاکہ میں بھراگیا۔ مسجد نبوی کے علاوہ بدر کے میدانوں، احد کی پہاڑیوں۔ حدیبیہ کی وادیوں، حنین کی گھاٹیوں اور تبوک کے کھنڈرات کو جن کے لئے تعلیم گاہ قرار دیاگیا۔ کیا انہی کے متعلق عقل تسلیم کرسکتی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رخصت ہوجانے کے بعد قرآن کے سوا وہ اپنے نبی کی ہر تعلیم سے بیگانہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہرسنت سے نا آشنا ہوگئے ہوں گے۔ اور ان کے نزدیک آپ کی احادیث کا مرتبہ محض بے سروپا داستان سرائی ہوگا۔ استغفراللہ! پیش کرنے والے (حکام وقت کی رضا جوئی کے لئے) اسی نظریہ کو جو پیش کررہے ہیں بتلایا جائے کہ فساد ذہن اور خلل دماغ کے سوا، عقل اس کی کیا توجیہہ کرسکتی ہے؟ نعوذ باللّٰہ من فتنة الصدور۔
صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جنھوں نے ایک ہی ذات اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت کے لئے بیوی بچوں سے جدا ہوجانا گوارا کیا، خویش واقربا کو چھوڑا، قبیلہ اور قوم سے منہ موڑا، ملک بدر ہوئے، جاہ وجلال اور زر ومال کو بھی خیرباد کہا، الغرض جو پوری کائنات سے کٹ کر ایک ہی ذات کے قدموں میں آپڑے تھے، جو جلوہ ہائے رنگارنگ سے ہٹ کر ایک ہی جلوہ جہاں آرا پر نظریں جماچکے تھے، جو ایک ہی مطاع کے سامنے مٹ کر اپنی زندگی کو ایک ہی زندگی میں فنا کردینے کا عزم کرچکے تھے، جو ایک ہی مقتدا کی اتباع میں اپنی تمام خواہشات سے دست کش ہوجانے کا فیصلہ کرچکے تھے، جن کی وارفتگی کو دیکھ کر حقیقت ناشناس ان کے بے عقل وناداں اور رفتار زمانہ سے ناواقف ہونے کا طعنہ دیا کرتے۔ جیساکہ قرآن میں ہے کہ کافر اور منافق لوگ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھ کر کہتے تھے ﴿غَرّ ہوٴلاءِ دینَہُمْ﴾ ”ان لوگوں کو ان کے دین نے دھوکے میں ڈال دیا“
﴿أنُوٴمِنُ کما اٰمن السفہاءُ﴾ (القرآن)
”کیا ہم نبی اور نبی کی ہر بات کو ایسا مان لیں جیسا یہ کم عقل مان بیٹھے ہیں“۔ جن صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کی جاں نثاری کا تماشہ وقت کے سب سے بڑے دشمن سے بھی خراج عقیدت وصول کرلیا کرتا تھا۔
زید بن وثنہ کو جب برسرِدار کھینچنے کے لئے میدان میں لایاگیا، تو ابو سفیان نے (جو بعد میں رضی اللہ عنہ کا مصداق بنے) کہا، صرف اتنا لفظ زبان سے کہہ دو کہ کاش میری جگہ ”محمد رسول اللہ ہوتے“ تو تمہیں چھوڑ دیا جائے گا۔ لیکن کسی کی محبت میں تختہ دار جس کے لئے تیار کیاگیا تھا، جانتے ہو اس کی زبان سے کیا لفظ نکلا۔
”واللّٰہِ مَا أحبُّ انَّ محمدًا الآن فی مکانہ الذی ہُوَ فیہ تُصیبہ شوکةٌ وأنا جالِسٌ فی أہلی۔(الشفاء بتعریب حقوق المصطفٰی، قاضی عیاض رحمة اللہ علیہ)
”بخدا مجھے یہ بھی گوارا نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جس جگہ اب تشریف فرما ہیں، اس جگہ آپ کو کانٹا چبھے اور میں اپنے گھر بیٹھا رہوں۔“
اس جاں گداز فقرے کو سن کر پتھر دل مجمع تڑپ گیا۔ ابوسفیان کو اقرار کرنا پڑا اور اقرار صرف اسکے متعلق نہیں جس سے یہ فقرہ سنا گیا بلکہ پوری ایمانی برادری کے متعلق ابوسفیان کا اقرار ہے۔
”ما رَأیتُ مِنَ النَّاسِ یُحِبُّ أحَدًا کَحُبِ أصْحاب محمدٍ مُحمَدًا صلی اللہ علیہ وسلم۔
”محمد کے صحابہ محمد کے ساتھ جس قدر محبت کرتے ہیں، میں نے ایسی محبت کسی کو کسی کے ساتھ کرتے نہیں دیکھا۔“
جو حضرات اپنے باپ کا سرکاٹ لانے کے لئے محض آپ کے اشارہ چشم کے منتظر رہا کرتے تھے، جو عمر بھر گریبان کھلا رکھنے کے اس وجہ سے عادی ہوگئے تھے کہ کسی کو انھوں نے ایک دفعہ کھلے گریبان دیکھ لیا تھا، جو سر کے بال اسلئے نہیں کٹواتے تھے کہ کسی کا ہاتھ ایک دفعہ ان بالوں پر پھر گیا تھا۔ جو خاص قسم کی سبزی کے اسلئے گرویدہ ہوگئے تھے کہ اس کی رغبت ان کو کسی میں محسوس ہوگئی تھی۔
سوچنا چاہئے کہ ان کا حال اس محبوب کے ساتھ کیا ہوگا اوراس محبوب کے ارشادات کی ان کے نزدیک کیا قدروقیمت ہوگی۔ سچ تو یہ ہے اور اس کا صحیح اندازہ بھی بیچارے بعد میں آنے والوں کو کب ہوسکتا ہے اور ان جذبات واحساسات کی پوری تصویر کشی بھی کب ممکن ہے۔ بالخصوص جب اس پر بھی نظر کرلی جائے کہ جس جلوہ جہاں آرا کی زیارت سے دیدہ ودل کی روشنی کا سامان ان کو میسر ہوا کرتا تھا، اب وہی ان کی نظروں سے پردہ میں جاچکا تھا، جس شمع عالم افروز پر پروانہ وار جانثاری کا منظر وہ رات دن پیش کیا کرتے تھے۔ وہی شمع عالمتاب اب محفل سے اٹھائی جاچکی تھی۔ ان کے ہر درد کا درماں جس چہرئہ انور کی زیارت تھی، وہی ان کے سامنے سے اوجھل ہوگیا تھا، ان حالات میں ان کے زخمِ دل کا مرہم اور داغِ جگر کا مداوا بجزتکرار حدیث یار ہوبھی کیا سکتا تھا؟
ما ہرچہ خواندہ ایم فراموش کردہ ایم
اِلاّ حدیث یار کہ تکرار مے کنیم
راقم الحروف کو چند گھنٹوں کے لئے ایک معمر خاتون کی خدمت میں حاضری کا اتفاق ہوا۔ ان کے والد ماجد ایک پختہ عالم اور درویش طبع انسان تھے۔ والد ماجد کی تعلیم سے زیادہ تربیت کا ان پر گہرا اثر تھا۔ اسی خاتون کو میں نے دیکھا کہ بار بار ان کی زبان سے بے ساختہ نکل جاتا۔ ابّا جی اسی طرح کیا کرتے تھے۔ ابّاجی یہ مسئلہ اس طرح بیان کیاکرتے تھے۔
میں تنہائیوں میں باربار سوچتا ہوں کہ یا اللہ! جو خوش قسمت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بلاواسطہ تربیت یافتہ تھے بلکہ مجھے اجازت دی جائے تو میں کہوں گا کہ جن حضرات کی تعلیم وتربیت کا سامان خود رب العزت جلّ مجدہ کی جانب سے کیا جارہا تھا اور قدم قدم پر جن کی تربیت کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بار بار ہدایات فرمائی جارہی تھیں جیساکہ قرآن حکیم کی آیات شاہد ہیں، ملائکة اللہ کو جن کی تثبیت (ثابت قدم رکھنے) کے لئے بھیجا گیا تھا، الغرض وحی اور صاحب وحی جس کی تربیت کے نگراں تھے ان کی تربیت کا رنگ کتنا گہرا، کتنا پختہ، کتنا پائیدار اور کتنا انمٹ ہوگا؟ (صِبْغَةُ اللّٰہِ وَمَنْ أَحْسَنُ مِن اللّٰہ صبغة)
سوچا نہیں جاتا جس آفتاب نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی کرنیں، آج چودہ صدیوں کے فاصلے پر بھی کروڑوں قلوب کو روشن اور تابناک کررہی ہیں وہی آفتاب خوش قسمتی سے جن کے گھر طلوع رہا ان کے آئینہ قلب کی روشنی کا کیا عالم ہوگا۔ لمبی لمبی راتوں میں تڑپنے والے قلب کی حرارت جب ہزار سال بعد بھی بے شمار دلوں کو گرما اور تڑپا رہی ہے جن کے سامنے وہ تڑپایا جاتا تھا اور اس کے سینے سے ہنڈیا پکنے کی آواز جن کو ان ناسوتی کانوں سے سنائی دیا کرتی تھی ان کی گرمیٴ باطن اور سوزِ دروں کا کیا حال ہوگا۔ ان باتوں کو کہاں تک بیان کیا جائے۔
حسن ایں قصہٴ عشق است در دفتر نمی گنجد
بہرکیف عقلیں اگر ماؤف نہیں ہوگئیں، دماغوں سے سوچنے اور سمجھنے کی صلاحیتیں اگر بالکلیہ رخصت نہیں ہوگئیں تو میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ ان حالات میں جن کا ایک شمّہ نقل کرچکا ہوں، صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے متعلق کیا یہ تصور کیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے محبوب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام ادائیں یکسر بھول گئے ہوں گے یا وہ ان کو قصہ کہانی سے زیادہ کوئی وقعت نہ دیتے ہوں گے لَقَد جئتُمْ شیئاً ادَّا لوگوں کو آج تعجب ہوتا ہے کہ وہ ایک ایک جملہ حدیث کی تصدیق و تائید کے لئے ایک ایک ماہ کی طویل مسافت کیسے طے کیاکرتے تھے، وہ طلب حدیث کے نشہ میں گرما وسرما کی شدتوں سے بے پروا کیسے ہوگئے تھے، صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کا نام زبان پر جب آجاتا ان کا رنگ کیونکر بدل جاتا تھا، ان کے بدن پر لرزہ کیوں کر طاری ہوجاتا تھا، ان پر گریہ وزاری اور رقت وبے قراری کی کیفیت کس لئے طاری ہوجاتی تھی!
ہائے! تعجب سے سرپیٹنے والے ان نادانوں کو کس طرح سمجھایا جائے کہ عشق نبوی کی جوآگ ان کے دلوں میں لگادی گئی تھی اس کا نتیجہ اس کے سوا ہوبھی کیا سکتا تھا؟
حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ اور حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم
یہاں تک جو بیان کیاجاچکا ہے اس سے ہر ذی شعور عقل سلیم کی روشنی میں فیصلہ کرسکتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعلق حدیث اور صاحب حدیث صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیسا تھا۔ اب اس طرف توجہ منعطف کرانا چاہتا ہوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کیا مقام تھا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم قرآن حکیم کے بعد حدیث نبوی کو دینی حجت قرار دیتے تھے۔ یعنی جس طرح قرآن کریم کا ہر فیصلہ ناطق ہر حکم واجب العمل اور ہر فرمان واجب الاطاعت ہے، (بشرطیکہ منسوخ نہ ہو) کتاب اللہ کے بعد ٹھیک یہی حیثیت صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک حدیث رسول کی تھی۔ ان کا ایمان اور عقیدہ یہی تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ ہر حکم ہر ارشاد اور ہر فرمان وحی خداوندی ہے۔ ان کے نزدیک جس طرح قرآنی بینات سے اعراض کرنے والوں کے لئے اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، حدیث اور سیرت کی کتابوں میں صحابہ کرام کی زندگی میں ایک واقعہ بھی ایسا نہیں ملتا کہ انھوں نے کسی حدیث کو صرف اس وجہ سے رد کردیا ہو کہ معاذ اللہ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کا ان کے لائے ہوئے دین میں کوئی مقام نہیں، اس لئے نہ ہمارا حدیث پر ایمان ہے نہ وہ ہمارے لئے دینی سند ہے۔ اس قسم کے نظریات کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف منسوب کرنے والے افترا پرداز جس ملحدانہ نجاست سے صحابہ رضی اللہ عنہم کرام کے دامن کو آلودہ دیکھنا چاہتے ہیں ان کو یاد رکھنا چاہئے کہ وہ اپنی تدبیروں کے باوجود ناکام رہیں گے۔ (وان کان مکرہم لتزول منہ الجبال)
واقعہ جیش اُسامہ (رضی اللہ عنہ)
نظر صحیح سے اگر کام لیا جاتا تو حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی خلافت میں پیش آنے والا صرف ایک واقعہ ہی حدیث سے متعلقہ تمام شکوک وشبہات کو دفع کرنے کیلئے کافی ثابت ہوتا۔ میرے نزدیک خلافت کی ذمہ داری قبول کرلینے کے بعد حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا کارنامہ مرتبہٴ حدیث کی تعیین اور مقام سنت کی تشخیص تھا۔ میرا اشارہ جیش اُسامہ رضی اللہ عنہم کے واقعہ کی طرف ہے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری ایّام میں سرحد شام کی طرف بھیجنے کے لئے حضرت اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہم کی امارت میں لشکرتیار فرمایا۔ مدینہ طیبہ سے کچھ فاصلہ پر مقام جرف میں یہ لشکر ابھی جمع ہورہا تھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی رحلت کا سانحہ کبریٰ پیش آیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ملال کی خبر سن کر یہ سارا لشکر مدینہ طیبہ واپس آگیا۔
جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ خلیفہ ہوئے تو حضرت اسامہ رضی اللہ عنہم کو دوبارہ تیاری کا حکم دیتے ہوئے فرمایا:
”اَنفِذْ فِیْ وجہکَ الذی وجّہک فیہ رَسُولُ اللّٰہ“
(جس مہم کیلئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کو روانگی کا حکم دیا تھا اس کیلئے روانہ ہوجاؤ)
چنانچہ لشکر دوبارہ اسی جگہ جمع ہونا شروع ہوا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حالات کس قدر نازک ہوچکے تھے اس کا کچھ اندازہ آج بھی تاریخی وثائق سے کیا جاسکتا ہے۔ حالات کی اسی نزاکت کے پیش نظر کبار صحابہ رضی اللہ عنہم کو لشکر اسامہ کا بھیجا جانا شاق گذرا۔ حضرت عمر، عثمان، ابوعبیدہ، سعد بن ابی وقاص اور سعید بن زید رضی اللہ عنہم جیسے اہل حل وعقد صحابہ کا وفد بارگاہ خلافت میں حاضر ہوا اور عرض کیا۔
”اے خلیفہ رسول اللہ! عرب آپ پر ہر طرف سے ٹوٹ پڑے ہیں۔ اس مٹھی بھر لشکر کو منتشر کردینا خلاف مصلحت ہے۔ براہ کرم اس لشکر کو مرتدین کے مقابلہ میں بھیجئے اور لشکر کا کچھ حصہ مدینہ طیبہ کی حفاظت کے لئے یہاں رکھئے۔ دشمن کی طرف سے براہ راست مدینہ طیبہ پر اگر حملہ کردیا جائے جس کا ہر وقت اندیشہ ہے تو آپ عورتوں اور بچوں کی حفاظت کا کیا انتظام کریں گے؟ روم سے سردست ایسا کوئی خطرہ نہیں کہ ان کی طرف پیش قدمی ضروری ہو اس لئے بہ مقابلہ روم لشکرکشی میں اگر توقف کرلیا جائے تو کیا مضائقہ ہے پہلے مرتدین سے نمٹ لیا جائے پھر آپ بصدخوشی اسامہ کو بھیج سکتے ہیں۔“
نہیں کہا جاسکتا کہ اراکین وفد نے حالات کی الجھن کو کس بے چینی کے ساتھ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے سامنے بیان کیا ہوگا۔ کس قدر مبسوط تقریریں ان کی جانب سے اس موضوع پر کی گئی ہوں گی اور کس قسم کے دلائل سے اپنا موقف سمجھانے کے لئے انھوں نے استدلال کیا ہوگا۔ البتہ روایت کے الفاظ سے اتنا پتہ چلتا ہے کہ ارکان وفد کے پاس ترکش سخن کا کوئی تیر باقی نہیں رہ گیا تھا جس کو انھوں نے استعمال نہ کرلیا ان کی پوری تقریر سن کر خلیفہ اسلام نے استفسار فرمایا: ”ہَلْ مِنْکُمْ أحَدٌ یُریدُ أن یقُولَ شیئًا“
”آپ حضرات میں سے کوئی صاحب کچھ اور تو نہیں کہنا چاہتے“
وفد کے تمام ارکان نے بیک زبان کہا ”نہیں“ ہمیں جو کچھ کہنا تھا وہ آپ سن چکے ہیں۔
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا جواب سننے سے پہلے اس پر غور کیجئے کہ اُسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو بھیجنے یا نہ بھیجنے کا مسئلہ بظاہر ایک وقتی اور ہنگامی قسم کا مسئلہ تھا پھر جن حالات میں یہ اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم لشکر اسامہ کو روک لینے کا مشورہ دے رہے تھے ان حالات میں ان کا مشورہ اس کے سوا ہوبھی کیا سکتا تھا۔لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا پہلا جانشین جس کو بنایاگیاتھا اس کے نزدیک یہاں بحث کسی خاص لشکر کی نہیں بلکہ فیصلہٴ نبوت کی تھی۔ عوام نہیں بلکہ جیسا کہ میں نے عرض کیا اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم اور مہاجرین اولین کے نزدیک بھی صرف ایک لشکر کے نہ بھیجنے کا سوال تھا اور جن حالات میں یہ مشورہ ان کی طرف سے پیش کیا جارہا تھا، بعد کے نتائج کو اگر سامنے نہ رکھا جائے تو ہر دیکھنے اور سننے والا ان کے اس مشورہ کو مبنی بر صواب قرار دینے پر مجبور ہوگا۔ لیکن نبی کے وصال کے بعد یتیم امت کا سربراہ اور متولی جس کو بنایا گیا تھا۔ اس کے نزدیک یہاں کسی لشکر کے بھیجنے یا نہ بھیجنے کا سوال ہی نہیں تھا۔ اس کے نزدیک اصل سوال صرف یہ تھا کہ لشکر اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو روم بھیجنے کا فیصلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرما چکے ہیں اور حالات کچھ ہوجائیں، آسمان ٹوٹ پڑے، زمین شق ہوجائے، پہاڑ ہل جائیں اور دنیا تہہ وبالاہوجائے لیکن پوری امت کے مقتداء اور پوری امت کے امام کے لئے کیا یہ گنجائش ہوسکتی ہے کہ فیصلہٴ نبوت کوبدل دے۔ نہیں! ہرگز نہیں۔ یہی اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم جو نازک ترین حالات کا حوالہ دے کر لشکر اُسامہ کے روک لینے کا مشورہ دے رہے تھے، وہ وہی سن رہے تھے (خدا ان پر ہزاروں رحمتیں نازل فرمائے کہ ان کے طفیل آج ہم اور آپ بھی سن رہے ہیں) کہ خلیفہ اسلام ان کے جواب میں فرمارہے ہیں۔
”والذی نفسی بیدہ لو ظننتُ أنّ السباعَ تأکُلنِی بالمدینة لأنفذتُ ہذا البعث ولا بُدّ أنْ یوٴب مِنہ کیف ورسُولَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزل عَلیہ الوحیُ مِن السماءِ یقُولُ أنفِذُوا جَیش أسَامة“ (حیات الصحابہ،ج:۱،ص:۴۱۰)
ترجمہ: ”اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے اگر مجھے اندیشہ بھی ہو کہ اس لشکر کو بھیج دینے کی صورت میں مجھے درندے کھا جائیں گے تب بھی میں اس لشکر کو بھیج کر رہوں گا اور اسے وہاں سے ہوکر ہی آنا ہوگا میں اس لشکرکو بھیجنے سے کیسے رُک جاؤں، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے وحی نازل ہورہی تھی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے، اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کے لشکر کو بھیجو۔“
حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ!
حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے اس پُرحکمت ارشاد میں اسلام کے کتنے بڑے اصول کو بیان کردیا گیا۔ تفصیل تو اس کی شاید کسی دوسرے موقع پر کرسکوں گا لیکن اجمالاً اتنا تو یہاں بھی سمجھ ہی لینا چاہئے کہ نبی کی پوری امّت اور علماء امت کا عقیدہ کہ وحی کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وحی جلی جسے قرآن کہا جاتا ہے دوم وحی خفی جسے حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہا جاتا ہے یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر قول وفعل بھی وحی الٰہی میں مندرج ہے۔ آپ جو کچھ کہتے تھے اپنی خواہش اور رائے سے نہیں کہتے تھے۔ بلکہ وحی الٰہی اور مرضی خداوندی کی روشنی میں کہتے تھے۔ اسی طرح جو فعل بھی آپ سے صادر ہوتا تھا۔ وہ بھی ہوائے نفس اور تقاضائے ہوس سے نہیں بلکہ وحی خداوندی کے تحت ہوتا تھا۔ یہ ناممکن تھا کہ معاذ اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی فعل یا ارشاد رضائے خداوندی کے خلاف ہو اور وحی الٰہی خاموش رہے۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال وافعال جسے حدیث کہا جاتاہے، کی حیثیت بھی وحی الٰہی کی ہے۔ بہرحال علماء اسلام کا یہ عقیدہ کہ حدیث نبوی وحی الٰہی وحی خفی ہے، کیا یہ عقیدہ کسی عجمی سازش کی پیداوار ہے؟ معاذ اللہ۔
حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کے الفاظ ”کیف ورسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ینزلُ علیہ الوحیُ مِن السماء۔
”اسامہ کا لشکر بھیجو۔ میں اس لشکر کو کیسے روک لوں۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر آسمان سے وحی نازل ہورہی تھی اور آپ فرمارہے تھے۔
”أَنفِذُوا جَیش أسَامة“ اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر بھیجو۔
میں کیا اس عقیدہ کا اظہار نہیں کیا جارہا۔ انفذوا جیش اسامہ کا جملہ جو لسان نبوت سے صادر ہوا۔ ظاہر ہے کہ قرآن کی کسی آیت کا جزو نہیں لیکن امت کے سب سے پہلے خلیفہ سے آپ سن رہے ہیں کہ اکابر صحابہ کی موجودگی میں وہ اس کے وحی من السماء (آسمانی وحی) ہونے کا اعلان پوری قوت کے ساتھ کررہے ہیں۔ اس کا مطلب اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ خلیفہ اسلام کے نزدیک آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر حکم اورہر فیصلہ وحی من السماء میں داخل ہے اور جس طرح قرآن حکیم وحی الٰہی ہونے کے سبب ملت اسلامیہ کے لئے دینی حجت ہے۔ اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر فیصلہ دینی سند ہے جس طرح قرآن حکیم کا متبع وحی الٰہی کا متبع ہے، اسی طرح حدیث نبوی کا منکر وحی من السماء (آسمانی وحی) کا منکر ہے۔ خلیفہ اوّل کے بیان کئے ہوئے اس عقیدہ کو عجمی سازش قرار دے کر پوری امت کو گمراہ قرار دینے والوں کو سوچنا چاہئے کہ وہ خود ہی کسی شیطانی سازش کا شکار تو نہیں؟
صدیقی عقیدہ کہ احکام نبویہ ناقابل تغیر ہیں
بہرحال حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے اس صدیقانہ جملہ سے ایک اصول تو یہی ثابت ہوا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ”وحی من السماء“ہیں اس لئے امت کے لئے ان کا درجہ وہی ہوگا جو وحی الٰہی کا ہونا چاہئے۔ دوسرا قاعدہ جو اسی پہلے عقیدہ پر مرتب ہوتا ہے، اس صدیقی ارشاد سے یہ ثابت ہوا کہ دین کی جن جزئیات کو وحی من السماء (آسمانی وحی) نے متعین کردیا ہے۔ ان جزئیات میں تغیر وتبدّل اگر ہوسکتا ہے تو وحی کے ذریعے ہوسکتا ہے۔ ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی نام نہاد مرکز ملت بصیرت قرآنی کے دعوے کے ساتھ، ان جزئیات میں تغیر وتبدل کی جرأت کرے تو اسے وحی الٰہی میں تحریف کا مجرم قرار دے کر بیک بینی و دوگوش ملت اسلامیہ سے خارج قرار دیا جائے گا۔ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ سے بڑھ کر خلیفہ راشد کون ہوگا اور جن اکابر صحابہ کا مجمع آپ کے گرد جمع تھا ان سے بڑھ کر قرآنی بصیرت کسے حاصل ہوسکتی ہے لیکن آپ دیکھ رہے ہیں کہ حضرت صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ لشکر اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو روک لینے پر محض اس لئے راضی نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اَنفذوا جیش اُسامہ کی تحریف اس سے لازم آتی ہے۔
پس جبکہ ایک فوجی نوعیت کے جزوی حکم کو نہیں بدلا جاسکتا تو کون عقلمند کہہ سکتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جو احکام عبادات، معاملات، خصومات اور اخلاق سے متعلق ہیں، ان کے کسی ایک شوشے کو دنیا کی کوئی قوت بدل سکتی ہے۔
سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ کے ارشاد کے موافق جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جملہ اقوال وارشادات وحی من السماء ہیں تو اس وحی آسمانی کی متعین کردہ جزئیات میں تبدیلی کی جرأت کسی شیطان کو ہوتو ہو کسی مسلمان کو کب ہوسکتی ہے۔ اس جملہ سے ایک اور مطلب کی بات نکل آئی وہ یہ کہ جب حدیث رسول اللہ وحی آسمانی ہے اوراس کے متعین کردہ جزئیات اسی طرح ناقابل تبدیلی ہیں جس طرح قرآنی جزئیات تو اس سے ثابت ہوا کہ حالات کی تبدیلی کا سہارا لے کر اگر کوئی شخص احادیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلو تہی کرنا چاہے تواس کی بھی گنجائش نہیں رہ جاتی۔
حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ جملہ کس قدر ایمان ویقین میں ڈوبا ہوا جملہ ہے کہ ”اگر مجھے درندے بھی مدینہ میں کھاجائیں تب بھی میں اس لشکر کو بھیج کر رہوں گا“۔ اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وحی آسمانی سے یہ حکم فرمایاہے کہ اُسامہ کے لشکر کو بھیجو اوریہ قصہ کیا یہیں ختم ہوگیا؟ جیساکہ میں نے کہا ایک طرف اکابر صحابہ رضی اللہ عنہم حالات کی نزاکت سے بے چین تھے۔ ان کے لئے یہ تصور بھی ناقابل برداشت تھا کہ حضرت اُسامہ کے ساتھ اہل اسلام کی عظیم جمعیة اگر مدینہ سے باہر دور دراز سفر کے لئے نکل گئی تو مدینة الرسول کی حفاظت کس طرح ہوگی۔ مدینہ طیبہ میں رہ جانے والے بیچاروں پر دشمن اگر حملہ کردے تو ان کی مدافعت کا کیا سامان ہوگا اور مسلمانوں کے بیوی بچوں کے علاوہ خود اُمہات المومنین کی حرمت کو خدا نخواستہ خطرہ اگر لاحق ہوتو اس کے لئے کیا صورت کی جائے گی۔ حالات کی یہی پیچیدگی عام صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ خود امیر جیش حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی بے چین کئے جارہی تھی چنانچہ امیر لشکر نے پھر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بھیجا کہ خلیفہ رسول کی خدمت میں حاضر ہوکر ان کی طرف سے واپسی کی اجازت طلب کریں پیغام میں اسی بے چینی کا اظہار تھا۔
”فان مَعِی وُجوہُہُم واعیاہم ولا أمن علی خلیفةِ رسُولِ اللّٰہ وثَقَلُ رسول اللّٰہ وأثقال المسلمین أن یتخطفَہُم المشرکون“۔
”مدینہ کی تمام قوت میرے ساتھ ہے۔ اس صورت میں خلیفہ رسول اللہ اور ازواج مطہرات اورمسلمانوں کے بیوی بچوں کے معاملہ میں مجھے بے اطمینانی ہے کہ دشمن ان کواچک نہ لیں۔“
حضرت عمر رضی اللہ عنہ امیر لشکر کا یہ پیغام لے کر چلے تو آتے ہوئے انصار نے ان سے کہا کہ اگر خلیفہ رسول اس لشکر کے بھیجے بغیر راضی نہ ہوں تو ان کی خدمت میں ہماری یہ درخواست پیش کردیں کہ
”أن یولی علینا رجُلا أقدمُ سنًا من أسامة“
”اُسامہ کے بجائے کسی بڑی عمر کے آدمی کو ہم پر امیر مقرر کردیں۔“
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ امیر لشکر کا پیغام لے کر بارگاہ خلافت میں حاضر ہوئے عام اندازہ یہی تھا کہ خلیفہ رسول اللہ سپہ سالار کے پیغام کو سن کر شاید نرم ہوجائیں گے۔ عام صحابہ رضی اللہ عنہم کے علاوہ سالار جیش کے نزدیک بھی یہ لشکر کشی کا تقاضائے وقت سے چونکہ آہنگ نہیں تھی۔ اس لئے قوی امید کی جاسکتی تھی کہ خلیفہ اعظم اپنے حکم پر نظر ثانی فرمائیں گے اور لشکر کوواپسی کا حکم ہوجائے گا اس موقع پر صحابہ رضی اللہ عنہم کی نظر ایک طرف تقاضائے حالات پر تھی تو دوسری طرف صدیق اکبر کا اصرار لشکر کشی ان کے لئے اچھا خاصہ معمہ تھا۔ لیکن حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی بصیرت ایمنانی کا فیصلہ یہ تھا کہ اسلام یا مسلمانوں کی حفاظت کا راز کسی لشکر کے بھیج دینے یا روک لینے میں نہیں۔ بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم اور فیصلہ کی حفاظت میں ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلہ کی حفاظت اگر کرلی گئی تو اسلام زندہ رہے گا اور مسلمان بھی محفوظ رہیں گے۔ خدانخواستہ جس دن فیصلہٴ نبوت مسلمانوں کے ہاتھوں میں محفوظ نہ رہا اس دن نہ مسلمانوں کو کوئی لشکر دشمن سے بچاسکے گا، نہ غریب اسلام ہی کی حفاظت ہوسکے گی۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے خلیفہ رسول اللہ کی خدمت میں امیر لشکر کا پیغام جب نقل کیاتو سن کر فرمایا۔
”ولو اختطفنی الکلابُ والذیابُ لم أرد قضاءُ قضاہُ رسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“
”مجھے اگر کتے اور بھیڑئیے بھی گھسیٹ کر لے جائیں تب بھی میں اس بات کو تبدیل نہیں کرسکتا جس کا فیصلہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماچکے ہیں۔“
یہا ں حضرت صدیق رضی اللہ عنہ نے لشکر بھیجنے کے لفظ ہی کو حذف فرمادیا۔ اصل بات نکھر کر سامنے آگئی کہ فیصلہٴ نبوت ناقابل تبدیل ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو یقین ہوگیا کہ اب حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ لشکر اُسامہ کے روک لینے پر کبھی رضامند نہ ہوں گے۔ اسلئے انھوں نے انصار کی درخواست پیش کی یعنی اسامہ کم عمر ہیں ان کے بجائے کسی بڑی عمر کے آدمی کو لشکر کا امیر مقرر کردیا جائے۔
وہی صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ جن کے حلم و بردباری، متانت اور وقار کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی موقع پر حلم خلیل اللّٰہی کے ہمرنگ قرار دیا تھا، اس درخواست کو سن کر ان ہی پر دیکھا گیا کہ یکایک جلال موسوی طاری ہوگیا۔
”فوثب أبوبکر، وکان جالساً فَأخَذَ بلحیتہ عُمر وقال ثکلتک أمُّکَ وعَدَمتکَ أمُّکَ یا ابن الخطاب استَعْمَلہُ رسولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم وتأمُرُنی أن أنزعَہ“
”ابوبکر بیٹھے تھے۔ اچانک اپنی جگہ سے اچھلے اور لپک کر عمر کی داڑھی پکڑلی اور فرمانے لگے۔ اے خطاب کے بیٹے تیری ماں تجھے گم پائے اور تیری ماں تجھے مردہ پائے۔ اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امیر بنایا ہے اور تو مشورہ دیتا ہے کہ میں اسے معزول کردوں۔“
آج خلیفہ رسول کی جانب سے خلیفة اللہ (موسیٰ علیہ السلام) کی سنت جوش و جلال کا مظاہرہ کیا جارہا ہے غور کرو کہ حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ طرز عمل قرآن کے ان الفاظ کی کیسی عمدہ تصویر ہے۔
”فأخَذَ بلحیة أخیہ یجُرُہ الیہ“
”موسیٰ علیہ السلام اپنے بھائی ہارون کی داڑھی پکڑکر اپنی طرف کھینچنے لگے“
سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا پرجلال انداز اس وجہ سے تھا کہ ہارون علیہ السلام قوم کو گئوسالہ پرستی کی گمراہی میں مبتلا دیکھ کر پھر بھی اسی قوم میں رہنا کیسے برداشت کرسکے۔ چنانچہ قرآن حکیم نے اطلاع دی کہ:
”قال یا ہارونُ ما منعک اذ رأیتَہُم ضَلُوا أن لا تتبعن، أفعصیت أمری“
ترجمہ: ”موسیٰ علیہ السلام نے ہارون سے فرمایا۔ ”اے ہارون جب تونے قوم کو دیکھ لیا تھا کہ وہ گمراہ ہوگئے ہیں تو تجھے کیا مانع پیش آیا کہ تم قوم کو چھوڑ کر میرے پیچھے نہ آئے۔“
ادھر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کا یہ غیظ وغضب اسلئے تھا کہ عمر رضی اللہ عنہ کی فاروقی بصیرت نے ایسے پیغام کو کیوں گوارا کیا جس سے فیصلہ نبوت میں ادنیٰ تبدیلی کا وہم پیدا ہوسکتا تھا۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ نہ پیغام بھیجنے والوں کے وہم وگمان میں تھا کہ اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی معزولی سے فیصلہ نبوت میں تبدیلی ہوجائے گی، نہ پیغام لانے والے کے خواب و خیال میں تھا کہ اس مشورہ پر عمل کرنے سے نبوت کے فیصلوں کو پس پشت ڈالنے کا دروازہ کھل سکتا ہے لیکن ”صدیقی فراست“ اس نکتہ کو پارہی تھی اس لئے انھوں نے حضرت عمر کی داڑھی پکڑ کر اس فتنہ کا ہمیشہ کے لئے سدباب کردیا تاکہ آئندہ کسی شکم سیر کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی متعین کردہ جزئیات میں ترمیم و تنسیخ کی جرأت نہ ہو۔ اگر حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے فیصلہ نبوت کی حفاظت کے لئے اتنی شدت کا اظہار نہ کیاجاتا اور اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کی جگہ کوئی دوسرا امیر مقرر کردیا جاتا تو کہنے والوں کو یہ کہنے کا موقع مل جاتا کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مقرر کردہ امیر کو معزول کردیا تھا۔ اسی راستہ سے دین میں تراش وخراش اور فیصلہ نبوت میں کتربیونت کا موقع لوگوں کو مل جاتا۔ لیکن صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ پر خدا کی ہزاروں نعمتیں نازل ہوں پوری امت کی جانب سے ان کو جزائے خیر دی جائے کہ انھوں نے ہر شدت کوگوارا کیا۔ مگر حدیث نبوی کے حصار میں شگاف نہ آنے دیا۔ ہر آزمائش کا مقابلہ کیا مگر فیصلہ نبوت میں ادنیٰ تغیر کو برداشت نہ کیا۔ ”فجزاہُ اللّٰہ عنا“۔
حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے اس موسوی طرز عمل کو سامنے رکھ کر اگر یہ دعویٰ کیا جائے کہ حضرت صدیق کی قرآنی بصیرت میں حدیث نبوی سے اعراض اور فیصلہ نبوت سے انحراف، گئوسالہ پرستی کے ہمسنگ تھا تو کون کہہ سکتا ہے کہ یہ دعویٰ بے جاہوگا۔
حضرت صدیق کی طرف سے اپنے بھائی وعمر کی داڑھی پکڑ کر کپکپاتے ہوئے جسم اور لرزتی ہوئی آواز میں جب کہا جارہا تھا۔
”استَعْمَلہُ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم وتأمُرنی أن أتزعہ“
ترجمہ: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے امیر مقرر کیا ہے تو مجھے کہتا ہے کہ میں اسے معزول کردوں۔“
اس وقت کسے معلوم تھا کہ کچھ زمانہ بعد ایسے ”سامری صفت“ بھی پیدا ہوں گے جو حکامِ وقت پراللہ ورسول کا نام چسپاں کرتے ہوئے ۔
(ہَذا الہکُم والہ موسٰی فنسی)              (القرآن الحکیم)
”یہ تمہارا اور موسیٰ کا خدا، موسیٰ تو بھول کر طور پر چلا گیا“ کا ”سامریانہ“ نعرہ لگائیں گے اور محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے تمام بینات میں قطع وبرید کرڈالنا ہی ان کے نزدیک ”قرآنی بصیرت“ ”سنت جاریہ“ اور ملکہ اجتہاد قرار پائے گا۔
”یقرأون القرآن ولا یجاوز تراقیہم“
”وہ قرآن پڑھیں گے لیکن کیا مجال کہ ان کے حلق سے نیچے اتر جائے۔“
اور لُطف یہ کہ انہیں سامری صفت دجالوں کو ایسے سادہ لوح پرستار بھی مل جائیں گے جو اپنی عبادت کی وجہ سے اس نئے گئوسالہ سامری ”مرکز ملت“ کو سچ مچ اللہ ورسول مان لیں گے اور چودہ صدیوں کے ہارون صفت علماء ربانی کی ہارونی نصیحت
”یا قوم انّما فُتِنْتُمْ بہ وانّ ربَکُم الرحمنُ فاتبِعُوْنِی واَطِیعُوا أمری“ (القرآن الحکیم: طہ)
”لوگو! تم فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہو۔ تمہارا رب (یہ گئوسالہ سامری نہیں بلکہ) وہ رحمان ہے جس کی رحمت زمین وآسمان کو محیط ہے۔ اس لئے خدارا تم میری پیروی کرو اور میرے حکم کی اطاعت کرو۔“
ان کے لئے بے اثر ثابت ہوگی، اور یہ شاگردان سامری، ہارون صفت علماء ربانیین کی اتباع کو انسان پرستی اور مذہبی اجارہ داری کا نام دیں گے!
بہرحال دور خلافت میں حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا کارنامہ میرے نزدیک یہی تھا کہ انھوں نے پوری قوت اور شدت سے مرتبہٴ حدیث کو اجاگر کیا۔ اور ”مقام سنت“ کو واضح فرمایا اور حکمت الٰہی ان کے لئے ایسے اسباب بروئے کار لاتی رہی جن سے حضرت صدیق رضی اللہ عنہ کو مختلف عنوانات میں مرتبہ حدیث نبوی کی وضاحت کا موقع بار بار ملتا رہا۔
جیش اُسامہ کے واقعہ میں تو ایسا نظر آتا ہے کہ حضرت صدیق پر وجد اور حال کی سی رقت طاری تھی اور وہ اس واقعہ میں جرأت وہمت کے پیکر تھے۔ اسی واقعہ کا اور روح پرور اور ایمان افروز جز اور سنئے!
حضرت اُسامہ رضی اللہ تعالی عنہ کا لشکر جب رخصت ہونے لگا تو خلیفہ رسول اللہ بنفس نفیس اُسامہ اور ان کے ہمراہیوں کو رخصت کرنے کے لئے مقام ”جرف“ میں تشریف لائے۔ واقعہ کے عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ اسامہ اپنی سواری پر تھے اور خلیفہ اسلام ان کے پہلو میں سواری موجود ہونے کے باوجود پیدل چل رہے تھے۔ اسامہ کی طرف سے ہر چند اصرار بھی کیاگیا۔
”یا خلیفَة رسول اللّٰہ لترکبن أو لأنزلن“
”خلیفہ رسول! یا آپ سوار ہوجائیں یا میں اتر جاؤں“ لیکن جواب میں خلیفہ اسلام فرمارہے تھے:
”واللّٰہ لا تَنزِل، و واللّٰہ لا أرکبُ ومَا علی أنْ أغبَرَّ قدمیّ ساعةً فی سبیل اللّٰہ فان للغازی بِکُلٍ خَطرَةٍ یخطُوہا سَبْعُ مائةٍ حسَنةً تُکتَبُ لَہُ وسَبْعُ مائةٍ درجة ترفَعُ لَہ، وتُمحَی عَنہ سَبْعُ مائةِ خطیئة“(حیات الصحابہ)
”خداکی قسم نہ تم اتروگے اور خداکی قسم نہ میں سوار ہوں گا میں اگر راہ خدا میں ایک ساعت کے لئے اپنے قدم غبار آلود کرلوں تو کیا مضائقہ ہے کیونکہ غازی کے لئے ہر قدم پرسات سو نیکیاں لکھی جاتی ہیں، سات سو درجے اس کے بلند کئے جاتے ہیں اور سات سو خطائیں اس کی مٹادی جاتی ہیں“۔ (حیات صحابہ)
جو کہنا چاہتا ہوں وہ آگے آتا ہے۔ یعنی حضرت اُسامہ اور ان کی جماعت کو رخصت کرکے جب واپس آنے لگتے ہیں تو اسلام کا الوداعی جملہ اَستودعُ اللّٰہ دِینک واَمانتکَ وخَواتیم عَملک“ (تیرا دین امانت اور خاتمہ عمل اللہ کے سپرد کرتا ہوں) ادا کرنے کے بعد خلیفہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم امیر لشکر سے خطاب کرتے ہوئے فرمارہے تھے:
”أن رسول اللّٰہ أوصاک فأنفِذ لأمر رسولِ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم فانی لَستُ أمرک ولا أنہاک عَنہ انما أنا مُنْفِذٌ لأمرٍ أمَرَ بِہ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم“ (حیات الصحابہ)
”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو وصیت فرماچکے ہیں یعنی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم گرامی بجاؤ۔ بندہ نہ کسی بات کا آپ کو حکم کرتا ہے نہ کسی چیز سے منع کرتا ہے۔ میری حیثیت صرف یہ ہے کہ میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کرنے والا ہوں اور بس“
حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے اس فقرہ کا مطلب یہی سمجھا ہوں اور شاید اس کے سوا دوسرا مطلب ہوبھی نہیں سکتا کہ حضرت صدیق ایک طرف ”مرتبہ فیصلہٴ نبوت“ بیان فرمارہے ہیں کہ اس میں ترمیم وتنسیخ صدیقی مسلک میں غیر صحیح ہے۔ دوسری طرف وہ خلیفہ رسول یا بلفظ دیگر خلیفہ اسلام کی حیثیت متعین کررہے ہیں کہ اس کی حیثیت صرف احکام نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے نافذ کرنے والے کی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے قضایا اور فیصلوں میں تبدیلی کردینا اس کا نہ منصب ہے نہ وہ اس کا مجاز ہے۔ کیوں نہ ہو جب خلیفة اللہ کو یہ منصب تفویض نہ کیاگیا کہ وہ اپنی رائے اور احکام اور فرامین میں رد وبدل کرڈالے۔ چنانچہ داؤد علیہ السلام کو مخاطب کرکے فرمایا جاتا ہے۔
”یا داودُ انا جعلناک خَلیفَةً فِی الأرضِ فاحکُمْ بین الناسِ بالحقِ ولا تتبع الہَوٰی فیضلک عن سبیل اللّٰہ“ (القرآن الکریم)
اے داؤد علیہ السلام ہم نے تمہیں اپنی زمین میں خلیفہ بنایا ہے اس لئے لوگوں کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کیا کرو۔ اور خواہش کی پیروی نہ کیجیو۔ ورنہ تمہیں اللہ کی راہ سے بہکادے گی۔
پس سوچنا چاہئے کہ اس بات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”خلیفہ راشد“ کے لئے کب گنجائش ہوسکتی ہے کہ وہ صاحبِ وحی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات اور ارشادات آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام اور قضایا میں ردو بدل شروع کردے۔ ایسی صورت میں وہ جانشین رسول اور خلیفہ نبی کہلانے کا کب مستحق ہوگا۔
حکیم الامت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب رحمہ اللہ ضروریات خلافت پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
واجب است بر خلیفہ نگاہ داشتین دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم برصنفیکہ بسنت مستفیضہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ثابت شدہ واجماع سلف صالحین براں منعقد گشتہ وانکار برمخالف“
(ازالتہ الخفاء جلد۱، ۲۹ طبع جدید)
”خلیفہ پر دین محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت اور نگہداشت اسی شکل میں لازم ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مستفیضہ سے ثابت ہے اور سلف صالحین کا اجماع اس پر منعقد ہوچکا ہے۔ اسی کے ساتھ خلیفہ کے فرائض میں یہ بھی داخل ہے کہ سنت مستفیضہ اور اجماع کی خلاف ورزی کرنے والوں پر گرفت کرے۔“
اسی مضمون کو حضرت صدیق رضی اللہ تعالی عنہ ان الفاظ میں بیان فرمارہے ہیں جو اوپر نقل کرچکا ہوں، یعنی
”انما أنا مُنفِذٌ لأمرٍ أمَرَ بہ رَسُولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم“
”میں تو صرف آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو نافذ کرنے والا ہوں“
یہ الفاظ تو خیر اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمائے گئے جس سے ایک گونہ اپنے اصرار کی وجہ بیان کرنا اور دوسرے لوگوں کا مشورہ قبول کرنے سے معذوری پیش کرنا بھی مقصود تھا۔ 


حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی


٭٭٭

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔