Thursday 2 October 2014

مرد و عورت کی نمازمیں فرق !!!

تحفظ دین
عورت اور مرد کی نماز ايک جیسی نہیں بلکہ فرق ہے۔
حدیث نمبر   1
حضرت وائن حجر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہے کہ مجھے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے وائل بن حجر تم نماز پڑھو تو اپنے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھاؤ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنی چھاتی کے برابر اٹھائے۔ (معجم طبرانی کبیر ج22ص18)
حدیث نمبر  2
حضرت عبدربہ بن سیمان بن عمیر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت ام درواءرضی اﷲ عنہا کو ديکھا کہ آپ نماز میں اپنے دونوں ہاتھ کندہوں کے برابر اٹھاتی ہیں۔
(جز ءرفع الیدین للامام بخاری ص7)
حدیث نمبر  3
حضرت ابن جریج رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عطا رحمہ اﷲ سے کہا کہ کیا عورت تکبیر تحریمہ کہتے وقت مرد کی طرح اشارہ(رفع یدین) کرے گی۔ آپ نے فرمایا عورت تکبیر کہتے وقت مرد کی طرح ہاتھ نہ اٹھائے آپ نے اشارہ کیا اور اپنے دونوں ہاتھوں بہت ہی پست رکھے اور ان کو اپنے سے ملایا اور فرمایا عورت کی (نماز میں) ايک خاص ہیئت ہے جو مرد کی نہیں ۔
(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)
حدیث نمبر  4
حضرت یزید بن ابی حبیب رحمہ اﷲ سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم دو عورتوں کے پاس سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں آپ نے فرمایا جب تم سجدہ کروتو اپنے جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملالیا کرو کیونکہ عورت ( کا حکم سجدہ کی حالت میں) مرد کی طرح نہیں ہے ۔
(مراسیل ابی داؤد ص8، سنن کبری بیہقی ج2ص223)
حدیث نمبر  5
حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کہ جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں سے چپکا لے۔ اس طرح کہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔ بلا شبہ اﷲ تعالی اس کی طرف نظر (رحمت) فرما کر ارشاد فرماتے ہیں کہ اے فرشتوں میں تمہیں گواہ بناتا ہوں اس بات پر کہ میں نے اسے بخش دیا ہے۔(کنز العمال ج7ص549)
حدیث نمبر  6
حضرت حارث رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ حضرت علی کرم اﷲ تعالی نے فرمایا کہ جب عورت سجدہ کرے تو خوب سمٹ کر کرے اور اپنی دونوں رانوں کو ملائے رکھے۔
(منصف ابن ابی شیبہ ج1ص279، سنن کبری بیہقی ج2ص222)
حد یث نمبر7
حضرت عبداس بن عباس رضی اﷲ عنہ سے عورت کی نماز کے بارے میں سوال ہوا تو آپ نے فرمایا کہ وہ اکٹھی ہو کر اور خوب سمٹ کر نماز پڑھے۔ ( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص270)
حدیث نمبر  8
حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں سے چپکا لے اور اپنی سرین کو اوپر نہ اٹھائے اور راعضاءکو اس طرح دور نہ رکھے جیسے مرد دور رکھتا ہے۔
( مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270)
حدیث نمبر  9
حضرت مجاہدرحمہ اﷲ اس بات کو مکروہ جانتے تھے کہ مرد جب سجدہ کرے تو اپنے پیٹ کو رانوں پر رکھے جیسا کہ عورت رکھتی ہے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص270)
حدیث نمبر  10
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے سوال ہوا کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں عورتیں کیسے نماز پڑھتی تھیں آپ نے فرمایا چہار زانوں بیٹھ کر پھر انہیں حکم دیا گیا کہ وہ خوب سمت کر بیٹھا کریں۔ ( جامع المسانید ج1ص400)
حدیث نمبر  11
حضرت ابو ہریرة رضی اﷲ عنہ سے مروی ہے کہ نبی علیہ الصلوة والسلام نے فرمایا تسبیح مردوں کے لئے ہے اور تصفیق (ايک ہاتھ کی پشت دوسرے ہاتھ کے پشت سے مارنا) عورتوں کےلئے۔
( بخاری ج1ص160، مسلم ج1ص180، ترمذی ج1ص85 )
حدیث نمبر  12
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہيں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی ۔ ( ترمذی ج1ص86، ابوداد ج1ص94)
حضرت مولانا عبد الحیی لکھنوی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ رہا( ہاتھ باندھنے کا معاملہ) عورتوں کے حق میں تو تمام فقہاءکا اس پر اتفاق ہے کہ ان کےلئے سنت سینے پر ہاتھ باندھنا ہے۔ ( السعایة ج2ص156)
امام ابولحسن علی بن ابوبکر رحمہ اﷲ فرماتے ہیں۔ اور عورت اپنے دونوں ہاتھ اپنے مونڈھوں تک اٹھائے يہی صحيح ہے کیونکہ یہ طریقہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا ہے نیز آگے چل کر فرماتے ہیں اور عورت اپنے سجدہ میں پست رہے اور اپنے پیٹ کو رانوں سے ملائے کیونکہ يہ اس کے لئے زیادہ پردہ کا باعث ہے ۔ ( ہدایہ ج1ص100و110)
امام ابو زید قیروانی مالکی فرماتے ہیں کہ عورت نماز کی ہیئت میں مرد ہی کی طرح ہے الايہ کہ عورت اپنے آپ کو ملا کر رکھے گی اپنی رانیں اور بازو کھول کر نہیں رکھے گی پس عورت اپنے جلسہ اور سجدے دونوں میں خوب ملی ہوئی اور سمٹی ہوئی ہو گی۔( الرسالة بحوالہ نصب العمود ص50)
حضرت امام شافعی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ اﷲ تعالی نے عورتوں کو يہ ادب سکھلایا ہے کہ وہ پردہ کریں اور يہی ادب اﷲ کے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے بھی عورتوں کو سکھلایا ہے لہذا عورتوں کےلئے سجدہ میں پسندیدہ يہ ہے کہ وہ اپنے اعضاءکو ملا کر رکھیں اور پیٹ کو رانوں سے چپکا لیں۔ اور اس طرح سجدہ کریں کہ ان کےلئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہو جائے اسی طرح ان کے لئے پسندیدہ ہے رکوع میں بھی جلسہ میں بھی بلکہ تمام نماز ہی میں کہ وہ اس طرح نماز پڑھیں کہ جس سے ان کے لئے زیادہ سے زیادہ پردہ ہوجائے۔(کتاب الام ج1ص115)
امام خرقی حنبلی رحمہ اﷲ فرماتے ہیں کہ مرد وعورت اس میں برابر ہیں سوائے اس کے کہ عورت رکوع و سجود میں اپنے آپ کو اکٹھا کرے ( سکیڑے) پھر یا تو چہار زانو بیٹھے یا سدل کرے کہ دونوں پاؤں کو دائیں جانب نکال دے، ابن قدامہ حنبلی اس کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اصل يہ ہے کہ عورت کے حق میں نماز کے وہی احکام ثابت ہوں جو مرد کے لے ثابت ہیں کیونکہ خطاب دونوں کو شامل ہے بایں ہمہ عورت مرد کی طرح رانوں کو پیٹ سے دور نہیں رکھے گی بلکہ ملائے گی) کیونکہ عورت ستر کی چیز ہے لہذا اس کےلئے اپنے آپ کوسمیٹ کر رکھنا مستحب ہے تا کہ يہ اس کے لئے زیادہ سے زیادہ ستر کا باعث بنے وجہ يہ ہے کہ عورت کےلئے رانوں کو پیٹ سے جدا رکھنے میں اس بات کا اندیشہ ہے کہ اس کاکوئی عضو کھل جائے ۔۔۔۔۔۔ امام احمد رحمہ فرماتے ہیں مجھے عورت کےلئے سدل ( بیٹھنے میں دونوں پاؤں کو دائیں جانب نکالنا) زیادہ پسند ہے اور اس کو خلال نے اختیار کیا ہے ۔
مندرجہ بالا احادیث وآثار، اجماع امت اور فقہائے کرام کے اقوال سے ثابت ہو رہا ہے کہ مردوعورت کی نماز ايک جیسی نہیں دونوں میں فرق ہے۔
1۔ مرد تکبیر تحریمہ کہتے وقت دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھائیں گے۔ اور عورتیں کندھوں تک جیساکہ حدیث نمبر  1 ،نمبر2،نمبر3 سے واضح ہے ۔
مراکزاسلام مدینہ طیبہ میں امام زہری رحمہ اﷲ، مکہ مکرمہ میں حضرت عطاءرحمہ اﷲ اور کوفہ میں حضرت حماد رحمہ اﷲ يہی فتوی ديتے تھے ( کہ عورت اپنے کندھوں تک ہاتھ اٹھائے) تفصیل کےلئے ملاحظہ فرمائیں ۔( منصف ابن ابی شیبہ ج1ص239)
2۔مر د دونوں ہاتھ ناف کے نيچے باندھيں گے اور عورتوں کا سینے پر ہاتھ باندھنا اجماع امت سے ثابت ہے جیسا کہ مولانا عبد الحیی لکھنوی رحمہ اﷲ کے بیان سے واضح ہے۔
3۔ مرد سجدے میں پیٹ رانوں سے اور باز وبغل سے جدا رکھیں گے اور عورتیں ملا کر( اس کو فقہا کی اصطلاح میں تجافی کہتے ہیں) جیساکہ احادیث نمبر4,5,6 سے واضح ہے۔
4۔مرد سجدے میں اپنے دونوں پاؤں پنچوں کے بل کھڑے اور دونوں بازو زمیں سے جدا رکھیں گے اور عورتیں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر اور با وزمین سے لگا کر سجدہ کریں گی۔
5۔مرد دونوں سجدوں کے درمیان نیز دونوں قعدوں میں دایاں پاؤں کھڑاکر کے اور بائیں پاوں کو بچھا کر اس پر بیٹھیں گے اور عورتیں ان سب میں دونوں پاؤں دائیں طرف نکال کر کولھوں پر بیٹھیں گی۔
6۔ اگر عورتیں مردوں کے ساتھ جماعت میں شريک ہو اور امام کو غلطی پر متنبہ کرنا پڑے تو مرد سبحان اﷲ کہیں گے اور عورتیں ہاتھ کی پشت پر مار کر متنبہ کریں جیسا کہ حدیث نمبر  11 سے واضح ہے ۔
7۔مرد کی نماز ننگے سر بھی ہو جائے گی لیکن عورت کی نماز ننگے سر ہرگز نہیں ہو گی جیسا کہ حدیث نمبر  12 سے ظاہر ہے۔
لیکن ان تمام احادیث وآثار، اجماع امت اور اقوال فقہاءکے خلاف غیرمقلدین کا کہنا ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں يہ فرق کرنا مداخلت فی الدین ہے ۔ العیاذ باﷲ
چنانچہ یو نس قریشی صاحب لکھتے ہیں۔
شریعت محمد میں مردو عورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں بلکہ جس طرح مرد نماز پڑھتا ہے اسی طرح عورت کو بھی پڑھنا چاہيے۔( دستور المتقی ص151)
حکیم صادق سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں:
عورتوں اور مردوں کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں........ پھر اپنی طرف سے يہ حکم لگانا کہ عورتیں سينے پر ہاتھ باندھیں اور مرد زیر ناف، اور عورتیں سجدہ کرتے وقت زمین پر کوئی اور ہیئت اختیار کریں اور مرد کوئی اور ........ يہ دین میں مداخلت ہے یا رکھیں کہ تکبیر تحریمہ سے شروع کر کے السلام علیکم روحمة اﷲ کہنے تک عورتوں اور مردوں کےلئے ايک ہیئت اور شکل کی نماز ہے سب کا قیام، رکوع، قومہ، سجدہ، جلسہ، استراحت ، قعدہ اور ہر ہر مقام پر پڑھنے کی دعائیں یکساں ہیں رسو ل اﷲصلی اﷲ علیہ وسلم نے ذکور واناث کی نماز کے طریقہ میں کوئی فرق نہیں بتایا“ (صلوة الرسول ص190-191)
ملاحظہ فرمائيے! احادیث بتلا رہی ہے کہ اﷲ کے نبی کے نزدےک مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔ خلیفہ راشد حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور دیگر صحابہ کرام کہہ رہے ہیں کہ مرد و عورت کی نماز میں فرق ہے۔ تابعین وتبع تابعین فرمارتے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے، اجماع امت سے ثابت ہو رہا ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔ ائمہ اربعہ کے جلیل القدر متبعین فرما ہے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہے۔قیاس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق ہونا چاہيے لیکن غیر مقلدین ان سب سے آنکھیں موند کر کہہ رہے ہیں کہ مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں بلکہ يہ دین میں مداخلت ہے ۔
قارئین محترم ذرا چشم بصیرت وا کیجئے اور سوچئے کہ يہ مداخلت فی الدین کا فتوی کس پر لگے رہاہے ؟؟ کیا اﷲ کے نبی دین میں مداخلت کرتے تھے ؟؟ سچی بات يہ ہے کہ غیر مقلدین خود دین میں مداخلت کرتے ہیں من پسند حدیث کومانتے ہیں چاہے وہ من گھڑت ہی کیوں نہ ہو ۔ اور اپنے موقف کے خلاف احادیث کوچھوڑ ديتے ہیں۔
قارئین فیصلہ فرمائیں کہ مرد وعورت کی نماز میں فرق کرنے کو مداخلت فی الدین قرار دینا يہ دحدیث کی موافقت ہے یا مخالفت ؟؟؟
غیر مقلدین سے سوال
اگر غیرمقلدین کے نزديک مرد وعورت کی نماز میں کوئی فرق نہیں ہے تو مندرجہ ذیل چیزوں کی عورتوں کو اجازت ملنی چاہيے۔
1۔ وہ اگر اپنی مسجد الگ بنانا چاہيں تو بنالیں۔
2۔اس میں وہ موذن،امام خطیب بھی بننا چاہیں تو بنیں۔
3۔ انہیں اذان دينے کی اجازت ہونی چاہيے۔
4۔ اقامت کی امامت کی اجازت ہونی چاہيے۔
5۔ مردوں کی طرح عورت کو بھی آگے ہوکر امامت کرانی چاہيے درمیان میں کھڑے ہونے کی پابندی نہیں ہونی چاہيے۔
6۔ مردوں کے ساتھ کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہيے۔
7۔اونچی آواز سے قرات اور اونچی آواز سے آمین کہنے کی اجازت ہونی چاہيے۔
8۔ انہیں بھی ننگے سر نماز پڑھنے اور نیز کہنیاں اور ٹخنے کھول کر نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہيے۔
9۔ان کے لئے بھی جماعت میں شرکت ضروری ہونی چاہيے۔
10۔ ان پر بھی جمعہ وعیدین کی نماز واجب ہونی چاہيے۔
لیکن غیر مقلدین حضرات عورتوں کو ان امور کی اجازت نہیں دیتے بلکہ مردووعورت میں فرق کرتے ہیں ہمیں بتلایاجائے کہ ان امور میں فرق کرنا مداخلت فی الدین نہیں توفقہائے نے جن امور میں فرق بیان کیا ہے ان میں فرق کرنا مداخلت فی الدین کیوں ہے ؟؟؟؟

یا رہے کہ اس مسئلہ میں غیر مقلدین نے ابن حزم ظاہری کی تقلید کی ہے۔

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔