Tuesday 17 December 2013

ضرورت فقہ حنفی اور مسئلہ تراویح : خطاب بمقام خانپور مورخہ مئی 1986ء : رئیس المناظرین ، وکیل احناف ، متکلم اسلام ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ

خطاب بمقام خانپور مورخہ مئی 1986ء
رئیس المناظرین ، وکیل احناف ، متکلم اسلام ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ
‏خطبہ مسنونہ : الحمد للہ وکفی و سلام علی عبادہ الذین اصطفی امابعد
فاعوذ باللہ من الشطین الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وما کان المؤمنون لینفروا کافة فلولا نفر من کل فرقة منہم طائفة لیتفقہوا فی الدین ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون وقال رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم من یرد اللہ بہ خیرا یفقہہ فی الدین صدق اللہ مولانا العظیم وبلغنا رسولہ النبی الکریم ونحن علی ذلك من الشہدین والشکرین والحمد للہ رب العلمین رب اشرح لی صدری ویسرلی امری واحلل عقدۃ من لسانی یفقہوا قولی - رب ذدنی علما و فہما سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا انك انت العلیم الحکیم اللہم صل علی محمد وعلی آل سیدنا و مولانا محمد واصحاب سیدنا و مولانا محمد وبارك وسلم علیہ
تمہید : دوستوں اور بزرگوں! میں نے آپ کے سامنے سورۃ توبہ کی ایک آیت کریمہ تلاوت کی ہے اور صحیح بخاری شریف کی ایک حدیث شریف پڑھی ہے - قرآن پاک کی اس آیت میں بھی فقہ کا تذکرہ ہے اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں بھی فقہ کا تذکرہ ہے
اللہ تبارک وتعالی ارشاد فرماتے ہیں: وما کان المؤمنون لینفروا کافة - اور سارے مسلمانوں سے تو یہ نہیں ہوسکتا کہ سب کے سب نکلیں - معلوم یہ ہوتا ہے کہ مسلمان کسی کام کے لئے جارہے ہیں - اس آیت مبارکہ کے سیاق و سباق سے پتہ چلتا ہے کہ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر مسلمان جہاد کے لئے جارہے ہیں تو اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں: فلولا نفر من کل فرقة منہم طائفة لیتفقہوا فی الدین - تو کیوں نہ ہو کہ ان کے گروہ میں ایک جماعت نکلے جو دین کی سمجھ حاصل کریں: ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون - اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں
یہ سورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک دور کے آخری سالوں میں نازل ہوئی جس وقت اسلام عرب کے بہت سے حصے پر پھیل چکا تھا - اب بات یہ تھی کہ جو لوگ نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہیں وہ تو جب کوئی مسئلہ پیش آتا خود حضرت اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ لیتے لیکن جو لوگ دور رہتے تھے نہ تو خود نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم ہر مسئلہ بتانے کے لئے وہاں تشریف لے جاسکتے تھے اور نہ وہ خود ہر ہر مسئلہ پوچھنے کے لئے حضرت کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ، تو دین آخر انہوں نے بھی سمجھنا ہے تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم اور ان لوگوں کے درمیان وہ کونسا واسطہ ہے جس کو اللہ اور اس کے رسول قابل اعتماد سمجھیں اور اس کے ذریعہ پہنچا ہوا دین خدا اور اس کے رسول کے نزدیک پسندیدہ ہو - تو اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ وہ جماعت فقہاء کی ہوگی فقہاء کے ذریعہ سے جو دین پہنچے گا وہ اللہ تبارک وتعالی کے نزدیک قابل اعتماد ہوگا - اور نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے نزدیک بھی قابل اعتماد ہوگا
فقہ کی ضرورت اور بنیاد
آپ کے ذہن میں یہ بات آرہی ہوگی کہ اللہ تبارک وتعالی فقہاء کے بجائے قاری اور حافظ کا نام لے لیتے ، اللہ تبارک وتعالی یہاں محدث کا لفظ فرمادیتے ، قرآن و حدیث کا لفظ آجاتا ، آخر اس میں کیا حکمت ہے کہ اللہ تبارک وتعالی نے یہاں فقہ کا لفظ فرمادیا - تو قرآن پاک خود ایک کامل کتاب ہے اور اسلام ایک مکمل دین ہے - اس لئے اللہ نے ایک ہی لفظ ایسا ارشاد فرمادیا جس میں یہ ساری چیزیں آگئیں
فقہ کی بنیاد اور ماخذ
چونکہ فقہ کی بنیاد چار چیزیں ہوتی ہیں - اول کتاب اللہ [قرآن پاک] دوم سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، سوم اجماع امت اور چہارم قیاس شرعی ، تو جب فقہ کا لفظ بول دیا گیا تو اس کا مطلب یہ ہے کہ جانے والا فقیہ قرآن بھی ساتھ لے کر جائے گا - اللہ کے نبی کی سنت بھی ساتھ لے کر جائے گا - امت کے اجماعی مسائل بھی ساتھ لے کر جائے گا اور جو نئے مسائل سامنے آئیں گے ان کا حل بھی قیاس شرعی سے دریافت کرلے گا ، تو دین اسلام کے لئے فقہ نہایت ضروری ہے کیونکہ اس کے بغیر مسائل حل نہیں ہوتے تو اس لئے اللہ تبارک وتعالی نے فرمایا کہ دین کو پہنچانے کا جو قابل اعتماد ذریعہ ہے یہ فقہاء ہیں
مثلآ ایک آدمی ایک علاقے میں صرف قرآن پاک لے کر چلاگیا ، اس نے جاکر قرآن سنایا کہ "اقیموا الصلوۃ" نماز قائم کرو - اب وہ لوگ پوچھتے ہیں کہ کتنی رکعتیں پڑھیں؟ تو قرآن پاک میں ان رکعتوں کا کوئی تذکرہ نہیں تو قرآن کے پہنچنے کے بعد بھی ان لوگوں کو نماز کا مکمل طریقہ معلوم نہیں
ایک دوسرا شخص حدیث کی کتاب لے کر چلاگیا اس میں یہ تو ملا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی چار رکعت ادا فرمائیں پھر دو رکعت ادا فرمائیں لیکن یہ تفصیل نہیں کہ کون کون سی رکعتیں سنت ہیں ، کون کون سی فرض ہیں ، کون کون سی نفل ہیں - یہ تفصیل احادیث میں موجود نہیں - تو اب اس [فقہ] کی تو ضرورت باقی رہی تو بغیر فقہ کے دین کے مسائل مکمل نہیں ہوتے
اس لئے آج ہم جو نمازیں پڑھ رہے ہیں وہ اسی فقہ کے مطابق پڑھ رہے ہیں - روزے کے مسائل معلوم کرتے ہیں تو اسی فقہ سے معلوم کرتے ہیں - حج کرتے ہیں تو مکمل مسائل ہمیں فقہ سے ہی ملتے ہیں - تو اللہ تعالی نے یہی کامل اور مکمل ذریعہ یہاں بیان فرمایا کہ کچھ لوگ فقیہ بنیں
مسائل بہشتی زیور کے دعوی بخاری شریف کا
رئیس المناظرین ، متکلم اسلام ، وکیل احناف ، ترجمان اہل سنت حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ تقریر کے لئے ڈیرہ غازی خان تشریف لے گئے - تقریر ختم ہوگئی تو غیرمقلدین کتابیں لے کر آگئے اور کہنے لگے: جانا نہیں ہم بات کریں گے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بات کرو ، بات کرنا تو حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسی علیہ السلام اور حضرت محمد رسول اللہ صلی علیہ وسلم کی سنت ہے اور ہمارے [فقہی] امام نے بھی ساری عمر بات ہی کی ہے - غیرمقلدین کہنے لگے کہ بات تو کرنی ہے مگر تجھ سے نہیں کیونکہ تو ماسٹر ہے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ اگر آپ قرآن میں دکھلادیں کہ ماسٹر سے بات کرنا ناجائز ہے تو میں بات نہیں کروں گا یا صحاح ستہ سے دکھادیں تب بھی میں بات نہیں کروں گا ، لیکن تمہاری طرف سے بھی عالم ہونا چاہئے جو بات کرے - اس غیرمقلد نے کہا میں شیخ الحدیث ہوں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے فرمایا: ذرا نماز ظہر کی رکعات تو بتلادیں کہ کتنی ہیں اور کیا کیا ہیں؟ لوگ حیران کہ مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے یہ کیا گھٹیا سا سوال کردیا ہے؟ اس غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: چار سنت ، چار فرض ، دو سنت ، دو نفل ، کل بارہ رکعات - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: یہ کہاں سے یاد کی تھیں؟ اس غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: بخاری شریف سے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ بخاری شریف سے مجھے بھی دکھلادیں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ بخاری شریف اس غیرمقلد شیخ الحدیث کے آگے کرتے اور غیر مقلد شیخ الحدیث صاحب پیچھے ہٹتے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ شاید ماسٹر سے بات کرنا تو گناہ ہو ، لیکن بخاری شریف کو ہاتھ لگانا تو گناہ نہیں - اس غیرمقلد شیخ الحدیث کے اور دوسرے غیرمقلد ساتھی بہت پریشان ہوئے کہ یہ کیا راز ہے؟ حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا کہ سولہ [16] احادیث کے خلاف اس نے سنت کہا ہے حالانکہ ان احادیث میں "تطوع" کا لفظ ہے ، یہ تو مجتہدین نے ہمیں بتلایا ہے کہ فرض کے علاوہ جس عمل پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مواظبت فرمائی ہو وہ سنت ہوتا ہے اور جس پر مواظبت نہیں وہ نفل ہے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ کی یہ بات سن کر غیرمقلد شیخ الحدیث نے کہا: واقعی مجھ سے غلطی ہوئی ہے ، رکعات یوں ہیں: چار نفل ، چار فرض ، دو نفل - غیرمقلد شیخ الحدیث کا یہ جواب سن کر ان کے دوسرے غیرمقلد ساتھی کھڑے ہوگئے اور کہا کہ مولانا آپ سنتوں کا انکار کررہے ہیں - اس کے بعد حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: یہ تمھارے گھر کی بات ہے اپنے گھر جاکر کرلینا کیونکہ ابھی تمہارے شیخ الحدیث صاحب کے علم کا اتنا زور ہے کہ پہلے ہی سوال سے بوکھلا کر اس نے سنتوں سے سنتوں سے انکار کردیا ہے ، اگر میں دوسرا سوال کردوں تو حضرت کو فرائض بھی نظر نہیں آئیں گے - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے سوال کیا: شیخ الحدیث صاحب! مسجد میں آپ بیٹھے ہیں ، سچ بتلانا کہ یہ رکعتیں کہاں سے یاد کی ہیں؟ غیرمقلد شیخ الحدیث صاحب فرمانے لگے: بہشتی زیور سے یاد کی [جس کو رات دن گالیاں نکالتے ہیں]‏
ان ‎غیرمقلدین کا ایک آدمی غصے میں کھڑا ہوگیا کہ ہمیں تو یہ شیخ الحدیث صاحب کہتے ہیں کہ "بہشتی زیور" بالکل غلط کتاب ہے اور خود رکعتیں بھی اسی سے یاد کرتے ہیں - حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ نے جواب میں فرمایا: بھائی! لڑائی اپنے گھر جاکے کرنا لیکن اتنی بات ہے کہ آئندہ سچ بتلادیا کریں کہ رکعتیں "بہشتی زیور" سے یاد کی ہیں بخاری شریف کا نام نہ لینا ، کیوں بھئی یہ کوئی گالی تو نہیں؟ [علمی معرکے اور مجلسی لطیفے ص 35 تا 36]
دعوی ہے بخاری اور مسلم کا
دیتے ہیں حوالے اوروں کے
ہے قول و عمل میں ٹکراؤ
یہ کام نام نہاد [اہلحدیثوں] کے
صرف قرآن و حدیث کا ترجمہ سمجھنا فقہ نہیں
اب یہاں ایک باب سوچنے کی ہے کہ صحابہ رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو جہاد کے لئے تشریف لے جارہے ہیں - ان کی مادری زبان پنجابی تھی یا سرائیکی تھی؟ [عربی تھی] تو وہ قرآن پاک کی عربی آیات سن کر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عربی احادیث سن کر ان کا مطلب سمجھ لیتے تھے یا نہیں؟ [سمجھ لیتے تھے] ہم سے بہتر سمجھتے تھے یا کم سمجھتے تھے؟ [بہتر سمجھتے تھے] ظاہر ہے کہ وہ ہم سے بہت زیادہ بہتر سمجھتے تھے - تو اگر قرآن پاک کا ترجمہ جان لینے کا نام فقہ ہوتا ، حدیث کا ترجمہ جان لینے کا نام فقہ ہوتا تو ان میں سے ہر کوئی آدمی ہم میں سے اچھا ترجمہ سمجھتا تھا - ان میں ہر شخص ہم میں سے بہتر حدیث کا مطلب جانتا تھا - تو اللہ تبارک وتعالی نے ان مطلب اور ترجمہ جاننے والوں کو فرمایا کہ ہر جماعت میں سے کچھ آدمی بیٹھ جائیں اور فقیہ بنیں - معلوم ہوا کہ صرف الفاظ کا یاد کرنا فقہ نہیں ، صرف ترجمے کا یاد کرلینا اس کا نام فقہ نہیں - کوئی بخاری شریف کا اردو ترجمہ پڑھ کر یہ سمجھے کہ میں فقیہ بن گیا ہوں تو اس نے قرآن پاک کی اس آیت کو سمجھا نہیں
فقہ گہرائی کا نام ہے
فقہ گہرائی کا نام ہے - تو نبی اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے ان صحابہ کرام کو اللہ تبارک وتعالی فرمارہے ہیں کہ فرقے میں سے ایک ایک آدمی بیٹھ جائے - اب آپ سوچیں گے کہ وہ فرقے کیسے تھے؟ اس زمانے میں فرقے یہ نہیں تھے جو آج کل بنے ہوئے ہیں - جیسے آپ رائیونڈ کے اجتماع ‎کے موقع پر دیکھتے ہیں کہ ضلع رحیم یار خان کے لوگ ایک جگہ پر بیٹھے ہیں تاکہ سفر میں کوئی تکلیف اور پریشانی نہ ہو - دوسرے ضلع کے لوگ ایک جماعت بناکر بیٹھ جاتے ہیں تاکہ آپس میں سہولت رہے - اسی طرح صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین جو جہاد کے لئے جارہے ہیں ان میں مذہبی فرفے نہیں تھے "کل فرقة" کا جو لفظ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک ایک قوم کے لوگ علیحدہ علیحدہ اپنے علاقے کی جماعت بناکر جارہے تھے تاکہ سفر میں کسی قسم کی کوئی پرییشانی نہ ہو تو ایک دوسرے کی واقفیت ہمارے لئے ان پریشانیوں کے دور ہونے کا سبب بنتی رہی
تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ جب جارہے ہیں - اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں کہ ہر قوم اور ہر فرقے کا کم از کم ایک ایک آدمی فقیہ ضرور بنے - اب جب یہ فقیہ بن جائیں گے تو پھر کیا کریں گے؟ اللہ تبارک وتعالی فرماتے ہیں: "ولینذروا قومہم اذا رجعوا الیہم لعلہم یحذرون" یہ یہاں سے فقیہ بن کر اپنی قوم میں چلا جائے گا ، اب ساری قوم اس فقیہ کی فقہ پر عمل کرے گی اور اس کی تقلید کرے گی اس سے دین کے مسائل پوچھ کر اس پر عمل کرے گی - اور یہ اللہ تبارک وتعالی کے حکموں سے ان کو ڈرائیں گے تاکہ یہ لوگ خدا کی نافرمانی سے بچ سکیں
فقہ جامع المسائل ہے
تو اس آیت کریمہ سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ کا دین آگے پہنچانے کے لئے سب سے قابل اعتماد ذریعہ ففہاء کا ہے - اور فقہاء کے پاس مکمل دین ہوتا ہے ، ان کے پاس دی کا ایک خاص پہلو نہیں ہوتا ، اس کو آپ ایک مثال سے سمجھیں
مثال : آپ کا بچہ اسکول میں پڑھتا ہے ، اس کے پاس ایک اردو کی کتاب ہے ، ایک معاشرتی علوم کی کتاب ہے - ایک دینیات کی کتاب ہے - ایک انگریزی کی کتاب ہے - ان ساری کتابوں میں ایک ایک مضمون ہے - لیکن ایک اس کے پاس گائیڈ ہوتی ہے - جس میں تمام مضامیں یکجا ہوتے ہیں - تو فقہ کیا ہے؟ اسلامی علوم کی گائیڈ بک ہے - قرآن پاک کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - امت کے سارے اجماعی مسائل فقہ میں آجاتے ہیں - اور قیاس شرعی کے بھی تمام مسائل فقہ میں آجاتے ہیں
فقہ کیا ہے؟
تو فقہ کو سمجھانے کے لئے ایک چھوٹی سی مثال عرض کرتا ہوں کیونکہ وقت بہت کم ہے - اب دیکھئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر مکھی تمہارے پینے کی چیز میں گرجائے تو اسے غوطہ دے کر نکال کر پھینک دو ، اب یہ الفاظ مجھے یاد ہیں - اس کا ترجمہ بھی یاد ہے - لیکن ایک آدمی آگیا ، اس کے پاس دودھ کا گلاس ہے ، اس میں دو مچھر گرے ہوئے ہیں - وہ کہتا ہے کہ یہ مچھر پڑے ہوئے ہیں ان کو کس طرح نکالنا ہے ، اس کا مسئلہ کیا ہے؟ اب حدیث میں مچھر کا لفظ تو آتا نہیں کہ مچھر گرجائے تو کیسے نکالا جائے اور سینکڑوں جانور موجود ہیں چھوٹے چھوٹے وہ سارے گرجائیں تو کیسے نکالے جائیں؟ اس کے لئے اب الفاظ مجھے بھی آتے تھے - ترجمہ مجھے بھی یاد تھا - لیکن فقیہ نے مجھے یہ بتایا کہ ان الفاظ کے نیچے اللہ کے نبی نے ایک قاعدہ بیان فرمایا ہوا ہے - جو ہر شخص کو نظر نہیں آتا - اجتہاد کی خوردبین لگانے سے وہ نظر آیا کرتا ہے - تو انہوں نے بتایا کہ اس کے نیچے قاعدہ یہ ہے کہ مکھی ایک ایسا جانور ہے جس کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اب ہر وہ ایسا جانور جس کی رگوں میں ایسا خون نہیں ہے اس کو مکھی پر قیاس کرکے اس کا یہی حکم معلوم کرلیا جائے گا جو مکھی کا ہے ، تو مچھر کی رگوں میں دوڑنے پھرنے والا خون نہیں ، اب مچھر کو مکھی پر قیاس کرکے نکال لیا گیا - اسی طریقہ سے بھڑ ہے ، جگنو ہے ، کیڑیاں ہیں ، چیونٹیاں ہیں ، ان کی رگوں میں بھی دوڑنے پھرنے والا خون نہیں اگرچہ حدیث ‎میں ان کا لفظ نہیں آیا کہ یہ پینے کی چیز میں گرجائیں تو کیا کیا جائے؟ لیکن فقیہ نے حدیث سے یہ قاعدہ اخذ کرکے ان سب کا حکم معلوم کرلیا اس کو کہتے ہیں فقہ یعنی کتاب و سنت کے الفاظ میں بہت سے مسائل ہیں - اور بہت سے مسائل اس کی تہہ می اللہ تبارک وتعالی نے مستور رکھے ہیں ، ان کو نکالنا فقہ ہے
تقلید کیا ہے
جس طرح سطح سمندر کی سیر بھی انسانی صحت کے لئے مفید ہے - لیکن بہت سے موتی اس کی تہہ میں چھپا رکھے ہیں - ان کو حاصل کرنے کے لئے غوطہ خور کی ضرورت پڑتی ہے - ہر آدمی کا یہ کام نہیں اب غوطہ خور نیچے سے نکال لائے اور ہم شکریہ ادا کرکے ان سے حاصل کرلیں اس کو تقلید کہتے ہیں اور غیر مقلدیت یہ ہے کہ مجھے غوطہ لگانا تو آتا نہیں لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ میں اس غوطہ خور سے موتی لینے کے لئے تیار نہیں ، اب سب دانا مجھے یہی سمجھائیں گے کہ جب تو غوطہ خور نہیں تو تو غوطہ نہ لگانا - میں کہتا ہوں کہ جب یہ خود غوطہ لگاکر نیچے سے لایا ہے تو میں بھی خود نیچے جاؤں گا تو اس کے بعد میں نے سب کے روکنے کے باوجود غوطہ لگادیا - اب لوگ سارے دیکھ رہے ہیں کہ باقی غوطہ خور تو موتی لے کر اوپر آگئے لیکن یہ خود ہی اوپر نہیں آیا
تو تقلید کہتے ہیں کہ غوطہ خور سے موتی لے کر استمعال کرلیا جائے اور اسی کو مقلد کہتے ہیں - اور غیرمقلد کہتے ہیں کہ جو خود ڈوب کر مرجائے نہ موتی نصیب ہو اور نہ اس کی زندگی باقی رہے ، تو اس لئے فقہ جو ہے یہ کتاب و سنت کی تہہ سے مسائل کے دریافت کرلینے کا نام ہے - اور دین کے مکمل مسائل صرف فقہ میں ملتے ہیں اور کسی علم میں نہیں ملتے تو یہ جو فقہاء بنیں گے یہ کیا کام کریں گے - پوری قوم کا اعتماد اپنے اس فقیہ پر ہوگا - فتوی ان ہی کا چلے گا ، علماء حضرات جانتے ہیں کہ آیت میں جو لفظ"لینذروا قومہم اذا رجعوا اليہم" آیا ہے - یہ انداز نذیر اور بشیر صفتیں دراصل نبیوں کی اللہ تبارک وتعالی بیان فرماتے ہیں قرآن پاک میں: "انا ارسلناك شاھدا ومبشرا ونذیرا [القرآن]‏
فقہاء انبیاء کے حقیقی وارث ہیں : اس آیت میں یہ صفت فقہاء کی بیان کرکے فرمادیا کہ نبیوں کے اگر کامل وارث ہیں تو صرف فقہاء ہیں - اس لئے علامہ سرخسی رحمة اللہ تعالی عليہ مبسوط کا خطبہ یہیں سے شروع فرماتے ہیں "اعوذ باللہ جعل ولایة الانذار للفقہاء بعد الانبیاء" اللہ تعالی کی تعریف ہے کہ تعریفیں خدا ہی کے لئے ہیں کہ جس نے نبیوں کے وارث فقہاء بنادیئے - تو اس آیت میں بھی فقہاء کو نبیوں کا وارث قرار دے دیا گیا ہے - یہاں انداز اور "یحذرون" بچنا اور ڈرانا ان الفاظ پر غور کریں - تو بالکل یہی مفہوم قانون کا ہوا کرتا ہے - تو مطلب یہ کہ قانون صرف فقہ کا نافذ ہوگا جب بھی ہوگا
فقہ کے بغیر چارہ کار نہیں : ایک دوست تقریر کررہا تھا اور بڑے غصے میں کہنے لگا میں نے پکا ارادہ کرلیا ہے اور قسم کھالی ہے کہ فقہ کو ملک سے نکال کر دم لوں گا - میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اللہ کے بندے ابھی تک تو فقہ تو اپنے مفتیوں سے نہیں چھین سکا - تیرے مفتی ہماری فقہ پر فتوے دے رہے ہیں - "فتاوی نذیریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ثنائیہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی ستاریہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی علماء اہلحدیث" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں "فتاوی غزنویہ" میں فقہ حنفی کے حوالے ہیں - تو جو ابھی اپنے مفتیوں سے فقہ نہیں چھین سکا وہ فقہ کو ملک سے کیسے نکال دے گا؟ میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ آپ تو ابھی تک فقہ کو اپنے مدرسے سے نہیں نکال سکے - تمہارے مدارس میں ہماری کتاب "ہدایہ" پڑھائی جارہی ہے - "شرح وقایہ" پڑھائی جارہی ہے - تو تم بتاؤ کہ تمہارے ہاں یہ تنخواہ جائز بھی ہے یا ناجائز ہے؟ تو میں محمد امین صفدر اوکاڑوی [رحمہ اللہ] نے کہا کہ اگر آپ نے ضرور تجربہ کرنا ہے تں ملک سے نکالنے سے پہلے اپنے گھر سے پہلے نکال کر دیکھیں - ایک گھر سے ، اس نے کہا کہ نکال دی
اب جناب ظہر کا وقت آگیا نماز پڑھنی ہے ، سب بیٹھے ہیں - کہتا ہے کہ نماز پڑھو اس نے کہا نماز کی تو شرطیں معلوم نہیں کہ کتنی ہیں - کیونکہ فقہ میں لکھی تھیں وہ تو ہم باہر جاکر رکھ آئے ہیں - نماز کی رکعتوں کی تقسیم کا علم نہیں ہے کہ سنتوں کی نیت کتنی رکعتوں میں کرنی ہے؟ فرض کتنے پڑھنے ہیں؟ نوافل کتنے ہیں؟ یہ تقسیم فقہ کی کتاب میں تھی - اب ہم پڑھیں کیا؟ نماز کے ارکان کا پتہ نہیں - سجدہ سہو کے مسائل کا ، ایک دو مسائل کے سوا پتہ نہیں چلتا - تو اب کیسے نماز پڑھیں؟ وہ کہتا ہے کہ اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ صرف فقہ سے ہم نہیں گئے بلکہ ہم تو خدا سے بھی گئے - کیونکہ خدا کی عبادت کرنے کا طریقہ ہمیں معلوم نہیں ہے - تو اس نے کہا کہ اچھا چلو سوچتے ہیں ، صلح کریں گے ان سے ، کھانا تو لے آؤ ، اس نے کہا کہ کیا لاؤں؟ کہتا ہے کہ دودھ لے آؤ - اس نے جواب میں کہا کہ دودھ تو بھینس کا ہے - اور بھینس کا لفظ قرآن میں بھی نہیں اور حدیث میں بھی نہیں تو بھینس کا دودھ تو فقہاء نے قیاس سے جائز کیا تھا - تو جب فقہ نکالی تو بھینس بھی ہم ان کے گھر باندھ آئے ہیں - نہ دودھ قسمت میں رہا نہ چائے قسمت میں رہی ، نہ گھی قسمت میں رہا نہ مکھن قسمت میں رہا حتی کہ لسی تک قسمت میں نہیں رہی ، تو ایسی فقہ نکالی اب کیا کریں - اس نے کہا پھر اور کوئی چیز اس نے کہا کہ دال پکائی تھی پانی میں ، وہ ہے - اگر کہیں تو لے آؤں اس نے کہا کہ چلو وہی لے آؤ ، اب ایسی ہنڈیا تھی اس نے ڈھانکا نہیں - اس میں جناب مچھر گرکر مرا ہوا ہے - چیونٹیاں گرکر مری ہوئی ہیں - دو تین بھڑیں اس میں بھنبھنارہی ہیں - دو چار مکھیاں ہیں - اور آٹھ دس چیونٹیاں اس میں مری ہوئی ہیں - اس نے کہا کہ اللہ کی بندی اس کو صاف تو کر دیتی اس نے کہا کہ کیسے صاف کرتی؟ فقہ کے بغیر چیونٹی نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر مچھر نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر یہ بھڑ نکلتی نہیں - فقہ کے بغیر جگنو نکلتا نہیں - فقہ کے بغیر تو یہ صاف ہی نہیں ہوگا ، اس لئے جب فقہ کو گھر سے نکال دیا ہے تو اب کیا صورت ہوگی؟ اب تو یہی ہے کہ چیونٹیاں کھانی پڑیں گی - یہ بھڑ تو زبان کو کاٹ کاٹ کر کھائے گی - یہ نکل نہیں سکتی کیونکہ وہ زبان جو فقہ کے خلاف بولتی ہے اس کا علاج یہی ہے کہ بھڑیں اس کو کاٹ کاٹ کر کے کھائیں اور فقہ کو نہ مانا تو یہ نکل سکتی نہیں
فقہ سے دین غالب رہے گا : آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ دین اس وقت تک غالب رہے گا جب تک ایک جماعت جہاد میں مصروف رہے اور دوسری فقہ میں ، اس وقت تک فرمایا کہ دین کو سربلندی حاصل رہے گی - مجاہدین کا کام کیا ہے؟ ملک گیری ، ملک حاصل کرنا ، کیا کام ہے؟ [ملک حاصل کرنا] اور فقہاء کا کام کیا ہے؟ اس ملک میں اسلامی نظام قائم کرنا تو اسی چیز سے سربلندی رہے گی نا؟ [جی]
فقہ حنفی کی ضرورت : اب دیکھئے قانون جو ہے وہ نافذ ہوا تو فقہ کی صورت میں نافذ ہوا - اب ہم جب مطالبہ کرتے ہیں کہ فقہ حنفی کو نافذ کیا جائے تو کئی طرف سے آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ فقہ کو ہم نہیں مانیں گے ، صرف اسلام کا قانون آئے اور کتاب و سنت کا قانون آئے - لیکن یہ ایک فریب ہے اس کو ذرا سمجھیں مثال سے
مثال:: آپ کے ملک میں اس وقت کوئی قانون چل رہا ہے یا نہیں؟ [چل رہا ہے] ایک تو آپ کے ملک میں ہوتا ہے متن قانون [آئین] اسی کا نام کتاب و سنت ہے - جو آئین ہے اس کا نام کیا ہے [کتاب و سنت] اور بعض اوقات آئین میں کوئی چیز قابل تشریح ہو تو قومی اسمبلی خود اس کی تشریح کردیتی ہے - تو اس قومی اسمبلی کہ جگہ اسلام میں خلافت راشدہ ہے - اور ہر خلیفہ راشد اس اسمبلی کا خلیفہ راشد ہے - تو اب دیکھئے کوئی شخص صرف آئین کا نام لے کر خلافت راشدہ کو چھوڑنا چاہے - قومی اسمبلی سے صرف نظر کرے تو وہ ملک میں ملک کے آئین کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] پھر اس کے بعد آپ کے ہر صوبے میں ایک ہائی کورٹ ہوتی ہے - اس کا چیف جسٹس جو ہے یہ قانون ساز نہیں ہوتا قانون دان ہوتا ہے - لیکن اپنے ملک کے قانون کا اتنا ماہر ہوتا ہے کہ اس کا فیصلہ بطور نظیر قانون کی کتاب L.P.D میں نقل کرلیا جاتا ہے - اور جتنی ماتحت عدالتیں ہیں - ڈی سی صاحب کے ہاں کیس آئے تو کمشنر صاحب کے ہاں کیس آئے سینئر سول جج کے ہاں کیس آئے تو وہ اس کا حوالہ P.L.D کا حوالہ دے کر فیصلہ کرتا ہے - اس کے حوالے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا
جس کو آپ اپنی اصطلاح میں ہائی کورت کا چیف جسٹس کہتے ہیں اس کو اسلامی اصطلاح میں مجتہد کہا جاتا ہے - مجتہد بھی قانون ساز نہیں ہوتا قانون کا ماہر ہوتا ہے - اور جس طرح دنیاوی مجتہدین کے فیصلےP.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - اسی طرح اسلام کے مجتہدین کے فیصلے P.L.D میں محفوظ کر لئے گئے - یہ ہدایہ ، یہ عالمگیری ، یہ شرح وقایہ یہ کتابیں بالکل ایسی حیثیت رکھتی ہیں اسلام میں ، جس طرح آپ کے ملک میں P.L.D کی کتابیں ہیں اور بھی اس طرح ماتحت عدالتیں اس P.L.D کا حوالہ دیتی ہیں - اسی طرح جو مفتی ہیں وہ قال ابو حنیفة ، قال شافعی ، قال احمد کہہ کر اپنا فتوی نقل کرتا ہے
لیکن بعض اوقات چیف جسٹس ایک ہوتا ہے - اور بعض اوقات ایک فل بنچ بیٹھتا ہے - جسے آپ کی اصطلاح میں سپریم کورٹ کہتے ہیں - اور اسلام کی اصطلاح میں اسے اجماع امت کہا جاتا ہے - اب اگر کوئی آدمی یہ کہے کہ صرف پاکستان کا آئین رہے اور یہ ہائی کورٹ ختم کردی جائیں - سپریم کورٹ کو ملک سے ختم کردیا جائے - ماتحت ساری عدالتیں ختم کردی جائیں - تو کیا ملک کا نظام چل سکتا ہے؟ [نہیں] آج کل تو لوگ یہ کہتے ہیں کہ اسلام تو آئے لیکن اسلام میں قیاس شرعی اور اجتہاد اور فقہ کا دخل نہ ہو ، یہ بالکل ایسی ہی بات ہے جس طرح کوئی یہ کہے کہ آئین پاکستان تو نافذ رہے لیکن میں پاکستان میں رہتا ہوا ہائی کورٹ کے فیصلے کو قبول نہیں کروں گا - اگر ہائی کورٹ کا فیصلہ صوبے میں رہتے ہوئے قبول نہیں تو قانون نافذ کون کرے گا یہاں؟ اور قانون چلے گا کس کے ذریعہ سے؟
کوئی آدمی یہ کہے کہ قانون اسلام تو آئے لیکن اجماعی مسائل جو ہیں وہ بطور قانون نافذ نہ کئے جائیں - تو یہ ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں ملک پاکستان ‎میں رہتے ہوئے ملک پاکستان کی سپریم کورٹ کے فیصلے کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - تو کیا کوئی ملک کسی بے وقوف کے کہنے سے ملک کی سپریم کورٹ کو ختم کرسکتا ہے؟ کیا کوئی صوبہ بغیر ہائی کورٹ کی عدالت کے قانون کو آگے چلاسکتا ہے؟ کوئی آدمی یہ کہے کہ میں ضلع میں رہوں گا لیکن ڈی سی کے فیصلے کا پابند نہیں ہوگا ، میں ڈویژن میں آباد رہوں گا لیکن کمشنر کے فیصلے کا پابند نہیں ہوں گا کیونکہ یہ P.L.D.‎ کے حوالے دیتے ہیں - سیدھے آئین کے حوالے نقل کررہے - تو یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی یہ کہے کہ میں مسلمان تو کہلاؤں گا لیکن اسلامی مفتیوں کے فیصلے ماننے کے لئے تیار نہیں ہوں - کیونکہ ‎یہ اپنے فتوے میں قال ابو حنیفة لکھتے ہیں - یہ قال شافعی لکھتے ہیں - یہ قال احمد لکھتے ہیں - یہ قال مالک لکھتے ہیں - تو جس طرح ملک ‎میں قانون نافذ ہوتا ہے ، اسی طرح ہر قانون ہوتا ہے - جس طرح اس میں ہائی کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - سپریم کورٹ کی بھی ضرورت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا اور ماتحت عدالتوں کی بھی ضرورت ہے اس سے صرف نظر نہیں کیا جاسکتا - جب بھی کوئی عدالت کا فیصلہ سنتا ہے تو اسے ایک ہی پتہ ہوتا ہے کہ یہ فیصلہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ پاکستان کے قانون کا فیصلہ ہے - جب بھی وہ ہائی کورٹ کا فیصلہ سنتا ہے تو اس کے ذہن میں ایک ہی بات ہوتی ہے کہ یہ اس جج کی ذاتی رائے نہیں بلکہ آئین پاکستان کا ہی فیصلہ ہے - بالکل اسی طرح حضرات ائمہ مجتہدین وہ جو فقہ مرتب فرماگئے ہیں یہ ان کے ذاتی فیصلے نہیں بلکہ کتاب و سنت سے وہ استنباط کرکے دیئے ہیں
اب میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ آپ کے سامنے کوئی آدمی آئے ، وہ یہ کہے کہ مجھے ووٹ دو میں حکومت بناؤں گا - تو آپ پوچھتے ہیں کہ حکومت بنانے کے بعد تیرا منشور کیا ہوگا تو وہ یہ کہے کہ ساری ہائی کورٹ کو بند کردوں گا - تمام سپریم کورٹ کو ختم کردوں گا - تمام ماتحت عدالتوں کو ختم کردوں گا - تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ وہ کیا ملک میں قانون چلانے کی اہلیت رکھتا ہے؟ [نہیں] ایسا آدمی جو ہے وہ توہین عدالت کا مرتکب ہے یا نہیں؟ [ہے] تو ایسے لوگ جو توہین عدالت کے مرتکب ہوتے ہیں وہ دراصل قانون کے ہی منکر ہوا کرتے ہیں
اللہ تبارک وتعالی نے تو یہ باتیں نہایت آسانی کے ساتھ سمجھائی ہیں - کیونکہ وجہ یہ ہے کہ فقہ کی ضرورت بہت زیادہ ہے اور عوام کو ہے - اس لئے ایسے انداز میں سمجھائی گئی ہے یہ ضرورت کہ ہر آدمی اس کو سمجھ جائے
فقہ بزبان قرآن
قرآن پاک سے جب یہ پوچھا گیا کہ فقہ کہتے کس کو ہیں تو قرآن نے ایک مثال بیان فرمائی "لعلمہ الذین یستنبطونہ منہم" یعنی جس طرح جو پانی اللہ نے زمین کے اوپر پیدا کیا ہے جو بہہ رہا ہے - دریاؤں کی صورت میں بہت سارا پانی ذخیرہ زمین کی تہہ کے نیچے چھپا رکھا ہے تو اللہ نے پانی کی مثال دے کر سمجھایا کہ جتنا پانی تمہاری زندگی میں پانی ضروری ہے خواہ تم کسی علاقے میں رہتے ہو اتنی ہی تمہاری زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - جس طرح تم پانی کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے اسی طرح تم فقہ کے بغیر گزارہ نہیں کرسکتے - لیکن آپ ہر جگہ پانی پیتے ہیں یا نہیں؟ [پیتے ہیں] استمعال کرتے ہیں یا نہیں؟ [کرتے ہیں] اب وہ پانی آپ کسی کنوئیں سے لے آئیں - کسی کے نلکے سے لے آئیں - کسی کے ٹیوب ویل سے لے آئیں - آپ کے دل میں کبھی یہ وسوسہ پیدا ہوا کہ پانی نلکے والے آدمی کا پیدا کیا ہوا ہے اللہ کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی کنواں کھودنے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - کبھی آپ کے دل میں یہ وسوسہ آیا کہ یہ پانی ٹیوب ویل لگانے والے نے پیدا کیا ہے ، خدا کا پیدا کیا ہوا نہیں ہے - آپ روزانہ پانی پیتے ہیں - ایک نے راستے میں نلکا لگادیا آپ نے پانی پیا - پہلے شکر خدا کا ادا کیا کہ یااللہ یہ تیری نعمت ہے اور پھر اس کے لئے دعا کی کہ اللہ اس کو بھی خوش رکھ جس نے گرمی میں راستے میں نلکا لگادیا اور تیرے پیدا کردہ پانی کو ظاہر کردیا ہے تاکہ اس کا استعمال آسان ہوجائے - تو جس طرح ٹیوب ویل میں پانی ہے ، کنوئیں میں پانی ہے ، نلکے میں پانی ہے ، یہ خدا کا ہی پیدا کیا ہوا ہے - یہ نلکا لگانے والے نے آسانی بنادی ہے ہمارے لئے تاکہ اس پانی کا استعمال ہمارے لئے آسان ہوجائے - ورنہ ایک قطرہ بھی اس نے پانی خود پیدا نہیں کیا
تو اللہ تعالی نے لفظ استنباط یہاں استعمال فرماکر یہ بات سمجھادی کہ جس طرح ہر علاقے میں تمہیں پانی کی ضرورت ہے - اور پانی پیتے ہوئے کبھی تمہیں وسوسہ نہیں آیا کہ نلکے کا پانی خدا نے پیدا نہیں کیا
اسی طریقہ سے آج تک آپ کے دل میں ایسا وسوسہ آیا کبھی؟ [نہیں] اب اگر کوئی بیوقوف اور پاگل شور مچائے کہ دیکھو جو پانی براہ راست آسمان سے آتا ہے اس کے نیچے یہ منہ کرکے پینا یہ تو خدا کا پانی پینا ہے اور نلکے سے پانی پینا شرک ہے کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے - کنوئیں سے پانی پینا حرام ہے کیونکہ یہ پانی انسان نے محنت کرکے نکالا ہے - ٹیوب ویل سے پانی پینا شرک ہے ، کفر ہے ، بدعت ہے ، کیونکہ اس میں انسانی محنت کا دخل ہوگیا ہے
تو دیکھو اللہ تبارک وتعالی نے ایسی آسان اور عام فہم مثال سے ہمیں بات سمجھادی - اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ ایک فرقہ اور جماعت کھڑی ہوجائے کہ آپ ہمیں ووٹ دیں ہم ملک میں قانون بنانا چاہتے ہیں - آپ ان سے پوچھیں کہ آپ کا منشور کیا ہے؟ وہ کہیں کہ جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو کسی گھر میں نلکا نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دنیا میں کوئی کنواں باقی نہیں رہنے دیں گے - جب ہم برسر حکومت آئیں گے تو دکوئی ٹیوب ویل باقی نہیں رہنے دیں گے - صرف بارش کے پانی پر گزارہ ہوگا اور اس کے سوا کسی کی ضرورت نہیں کیونکہ ہم خدا کے ماننے والے ہیں - ہم ان بندوں کے پیچھے لگنے والے نہیں ہیں - تو میں آپ حضرات سے پوچھتا ہوں کہ کیا ایسا فرقہ ملک کو کامیاب کرے گا یا اجاڑے گا؟ [اجاڑے گا]
تو اب دیکھئے یہ کہنا کہ ہم اسلام چاہتے ہیں لیکن اسلامی فقہ کا قانون نہیں آئے گا ، یہ بالکل ایسی ہی جہالت اور بے وقوفی کی بات ہے کہ ہم ملک میں قانون چاہتے ہیں ، پانی کی ضرورت ہے لیکن نلکے کی ضرورت نہیں ہے - نلکا ہوگا تو اکھاڑ دیا جائے گا - ٹیوب ویل برباد کردیئے جائیں گے - تو کیا ایسا فرقہ کبھی ملک کو چلاسکتا ہے؟ [نہیں] جو فرقہ آج تک ہمارے سامنے اس بات سے عاجز ہے کہ وہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا وہ بھی یہ دعوی کرسکتا ہے کہ میں ملک کو چلاسکتا ہوں ، جو فرقہ ایک رکعت نماز کے مسائل نہیں بتاسکتا ، جو چائے کی پیالی میں پڑا ہوا مچھر نہیں نکال سکتا - جیسے جھوٹے خدا نمرود کو مچھر نے مار ڈالا تھا - یہ جھوٹا مذہب تو ایک مچھر سے مرجاتا ہے - وہ مچھر سامنے ٹوں ٹوں کررہا ہے - ہمت ہے تو نکالو مجھے ، ارے جو مچھر سے مار کھا جائے وہ ملک کا قانون چلاسکتا ہے؟ ان کو کیا حق ہے کہ ملک میں قانون چلانے کا نام لیں
فقہ بزبان سید ولد آدم صلی اللہ علیہ وسلم
صحیح بخاری شریف میں ایک اور مثال ہے - آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک وتعالی نے جو دین مجھ پر نازل فرمایا اس کی مثال بارش کے پانی کی ہے - جب یہ بارش زمین پر نازل ہوتی ہے تو زمیں تین قسم کی ہوتی ہے - ایک وہ زمین جہاں پانی تالاب کی شکل بن کر کھڑا ہوجاتا ہے - ایک وہ کھیت ہیں کہ جس کو بخاری شریف میں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے "ارض طیبہ" فرمایا کہ وہ پاکیزہ زمین اس نے اپنا سینہ کھول دیا اور پانی اندر جذب ہوگیا - اب ہماری زندگی کی تمام ضروریات اللہ تعالی نے اسی پانی کی برکت سے اس کھیت میں پیدا فرمادی ہیں - ہمیں گندم کی ضرورت ہے تو وہ تالاب میں ہوتی ہے یا کھیت میں؟ [کھیت میں] ہمیں گنے کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں جو اور باجرے کی ضرورت ہے وہ کہا ملتا ہے؟ [کھیت میں] ہمیں کپاس کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتی ہے؟ [کھیت میں] ہمیں آم ، انار ، کیلا ، سیب ان پھلوں کی ضرورت ہے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں پھولوں کی ضرورت ہے خوشبو کے لئے وہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں جڑی بوٹیوں کی ضرورت ہے دوا کے لئے وہ کہاں ہوتی ہیں؟ تو اس کو حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ سے تعبیر فرمایا - تالاب مثال ہے حدیث کی کتاب کی ، جس طرح تالاب میں ہر پڑھا لکھا اور ان پڑھ اپنی آنکھوں سے پانی دیکھ لیتا ہے - اس طرح حدیث کی کتاب میں "قال قال رسول اللہ" کے الفاظ نظر آجاتے ہیں لیکن کھیت میں ہر ایک کو پانی نظر نہیں آتا - عقیدہ یہی ہوتا ہے کہ اس کھیت میں جتنی بھی فصل پیدا ہوتی ہے وہ ساری اسی پانی کی ہی برکت ہے - اب کھیت مکمل ہے اور تالاب اس میں مکمل چیزیں نہیں - اس لئے یہ تالاب والا خود بھی جاکر کھیت والے سے چیزین وصول کرتا ہے
یہی وجہ ہے کہ جتنے بھی محدثین ہوئے ہیں وہ کسی نا کسی امام کے مقلد ہوئے ہیں - محدثین کے حالات پر جو کتابیں خود محدثین نے لکھی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں - طبقات حنفیہ ، طبقات شافعیہ ، طبقات مالکیہ ، طبقات حنابلہ ، طبقات غیرمقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے محدث نے محدثین کے حالات میں نہیں لکھی تو اس لئے یہ کھیت کی تیسری زمین وہ ہے - جو ایک ٹیلہ تھا تو وہاں پانی نہ تالاب کی شکل میں کھڑا ہوا اور نہ وہاں کھیت کی طرح فصل اگی - لیکن جو لوگ یہاں آباد ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے] اب یہ ضروریات زندگی حاصل کرنے کے لئے کھیت والے کے پاس آئیں گے اور حاصل کرنے کے طریقے دو ہیں - ایک جائز دوسرا ناجائز ہے - تو جائز طریقے سے ان سے چیز لے لینا اس کو کہتے ہیں تقلید ، اور چوری کرلینا ، گنے یہاں سے اکھاڑے اور کھاگئے اور چھلیاں اگلے کھیت سے جاکر اتارلیں - آخر زندگی تو بے چارے نے گزارنی ہے نا؟ [جی] تو اس کو کہتے ہیں غیرمقلدیت ، تو اسی طرح:
کہیں کی اینٹ اور کہیں کا روڑا
بھان متی نے کنبہ جوڑا
لطیفہ :: بے چاروں کا کوئی مذہب ہی نہیں ، اس پر ایک لطیفہ یاد آیا - شادی تھی کسی کی - تو شادی میں مہمان دو طرفہ ہوتے ہیں - ایک بارات کے ساتھ آتے ہیں - اور ایک لڑکی کے گھر والوں کی طرف سے - ایک آدمی نے روٹی کھانی تھی - ان کا رشتہ دار نہیں تھا ، اس نے کہا کہ کسی طرح میں بھی بیٹھ جاؤں ، اب سوچنے لگا کہ بارات والوں میں بیٹھوں یا میل والوں میں بیٹھوں؟ تو سوچتا رہا آخر درمیان میں بیٹھ گیا - ایک جگہ اب بارات بیٹھی ہے - آپس میں تعارف ہورہا ہے کہ یہ کون ہے ، یہ کون ہے - یہ لڑکی کا سسر ہے - چلتے چلتے رشتے پوچھے جارہے ہیں - اب اس پر بھی آئے کہ تو کون ہے؟ اس نے کہا کہ میں لڑکی کا ٹٹورا ہوں - تو لوگوں نے کہا کہ یہ کوئی نیا رشتہ ہے غیرمقلدوں والا ، پہلے تو کبھی سنا نہیں - ٹٹورا کیا ہوتا ہے؟ اس نے کہا کہ لڑکی کا باپ اور میں کسی زمانہ میں ٹٹو چلایا کرتے تھے - اب وہ سمجھ گیا کہ یہ صرف کھانے کا بہانہ ہے - یہ رشتہ ہم نہیں جانتے تو غیرمقلدوں میں کوئی ایسا رشتہ تو ہوگا تو عام لوگوں میں کوئی ایسا رشتہ نہیں ہوتا - انہوں نے کہا کہ آپ جائیں ہم ایسے رشتے تو پہچانتے نہیں ، اب یہ بے چارہ بڑا پریشان ہوا کہ کھانا کھانا تھا نیا رشتہ بھی گھڑا لیکن کھانا نہیں ملا - تو اس کے پاس ایک ڈنڈا تھا اس نے منہ کو لگالیا اور باجے والوں کے ساتھ ساتھ جاکر کھڑا ہوگیا - اب جب باجے والے روٹی کھانے لگے تو کھلانے والے نے دیکھا کہ باقی کے پاس تو باجے ہیں لیکن ڈنڈا والا ہے یہ کون ہے؟ اس نے کہا کہ ٹھیک ہے تم سارے روٹی کھالو لیکن تم سارے اپنا اپنا باجا بجاکر دکھاؤ - اب سب نے اپنا باجا بجاکر سنادیا - جب اس کی باری آئی تو کہا کہ تم بھی بجاؤ - اس نے کہا میرا اکیلا نہیں بجتا ، سب میں ملا جلتا بجتا ہے
تو بالکل یہی بات غیرمقلد کہتا ہے کہ میرا اکیلا کوئی مذہب نہیں - سب میں ملا جلا میرا مذہب ہے - تو ان بے چاروں کا مسلک کیا ہے چوری ڈاکے کا مسلک ہے - دو چار مسئلے شافعیوں سے چرالئے - کہتے ہیں کہ جی ہم تمہارے جیسے ہیں - ہم آپ جیسے ہیں - ان کے ساتھ مل گئے اور پھر دو چار مسئلے حنبلیوں سے لے لئے ان کے پاس چلے گئے کہ جی ہم آپ جیسے ہیں - اب پاکستان میں ہمارے فرقہ کے چند آدمی رہتے ہیں اور بالکل یتیم و مسکین فرقہ ہے جو آپ کے پاس زکوۃ ہو ہم یتیموں مسکینوں کو دے دیا کرو کیونکہ اور دنیا میں ہمارا فرقہ موجود نہیں ہے
اتنے بڑے جہاں میں کوئی نہیں ہمارا
فقہ کی مثال
تو اب اندازہ لگائیں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فقہ کی مثال دی ہے کھیت سے اور باقی جتنے لوگ ہیں ان کو بھی ضروریات زندگی کے لئے کھیت کی ضرورت ہے یا نہیں؟ [ہے]
اب ہم لوگ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے محنت کرکے جو کھیت پکایا تھا اس کی فصل کھارہے ہیں اور عقیدہ یہی رکھتے ہیں کہ اس فصل کا پیدا کرنے والا خدا ہے - اور اوپر محنت کرنے والا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں - ہم خدا کا بھی شکریہ ادا کر رہے ہیں اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو بھی دعائیں دے رہے ہیں
اب آپ کے پاس کوئی جماعت آئے ووٹ لینے کے لئے ، بھائی ووٹ لے کر آپ کیا کریں گے؟ کہ ہم ملک میں قانون چلائیں گے - آپ کا منشور کیا ہوگا - اس نے کہا کہ سب سے پہلے ہم ملک کے سب کھیتوں کو آگ لگائیں گے اجاڑ دیں گے کیونکہ کھیت مثال ہے فقہ کی اور یہ مثال میں نے اپنی طرف سے بیان نہیں کی - بخاری شریف میں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے مثال بیان فرمائی ہے - تو دیکھئے جس طرح کھیت کے لئے پانی ضروری ہے اس طرح اسلامی زندگی کے لئے فقہ ضروری ہے - کوئی کھیت بغیر پانی کے پنپ سکتا نہیں
اور جو کھیت کا دشمن ہے وہ ملک کا دشمن ہے - اسی طرح جو فقہ کا دشمن ہے وہ اسلام کا دشمن ہے - تو جب بھی قانون آئے گا فقہ کی صورت میں آئے گا - یہ کہنا کہ اسلام تو نافذ ہو لیکن فقہ نافذ نہ ہو - یہ ایسی ہی بات ہے کہ ملک میں بارانی زمینیں رہیں لیکن کھیت وغیرہ سے فصل ہم اگنے نہیں دیں گے - بس بارش کا پانی پی پی کر ہم گزارہ کریں گے اور آپ کو بھی بارش کے پانی پر ہی رکھیں گے
فقہ حنفی کیا ہے؟اور فقہ جعفری کیا ہے؟
اب ہم جب واضح دلیلوں سے یہ بات سمجھا دیتے ہیں کہ فقہ کے بغیر کبھی بھی کسی ملک میں کوئی قانون نافذ نہیں ہوا - فقہ ہی کی شکل میں قانون آئے گا - تو اب دو باتوں سے ہمیں ڈرایا جاتا ہے - ایک تو یہ بات کہی جاتی ہے کہ فقہ کتنی ہی ضروری سہی لیکن آپ نام نہ لیں - کیونکہ آپ فقہ حنفی کا نام لیں گے تو وہ فقہ جعفری کا نام لیں گے - اس لئے آپ کم از کم ان کا خیال کریں ، آپ فقہ حنفی کا نام لینا چھوڑ دیں
میں نے آپ سے پوچھا کہ فقہ کی بنیاد کتنی چیزیں ہیں؟ [چار] تو فقہ جعفری والوں کا قرآن غار میں ہے - تو ان کی فقہ کی پہلی بنیاد ہی نہیں - وہ فقہ کیسی جس کی بنیاد میں قرآن نہ ہو؟ اور دوسری بنیاد سنت ہے - تو شیعہ کے پاس حدیث کی کوئی کتاب ہی نہیں ، تو گویا دوسری بنیاد بھی موجود نہیں - اجماع امت تیسری بنیاد ہے - اس کو وہ مانتے نہیں ورنہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو خلیفہ برحق ماننا پڑے گا ورنہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ کو خلیفہ ماننا پڑے گا - اس لئے وہ اجماع کو بھی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو فقہ کی تیسری بنیاد بھی ان کے پاس موجود نہیں - اور چوتھی بنیاد قیاس شرعی ہے - اور قیاس ہوتا ہے کتاب و سنت کو سامنے رکھ کر ، جب کتاب و سنت ہی نہیں تو قیاس ہوگا کہاں؟ تو اس لئے ان کے پاس نام ہے فقہ کا لیکن بنیاد ایک بھی نہیں تو وہ تو جھوٹا نام ہوا
تو اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ دنیا میں لوگوں نے سچے خدا کے مقابلے میں جھوٹا خدا بنائے یا نہیں؟ [بنائے] تو کیا خدا کا نام لینا چھوڑ دیں؟ [نہیں] اسی طرح اب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیں تو کوئی ڈرائے کہ وہ بے شک سچے سہی ، لیکن اگر آب نام لیں گے تو قادیانی بھی مرزا کا نام لیں گے ، اس لئے جھوٹے نبی سے ڈر کر آپ سچے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینا چھوڑ دیں تو اس کو آپ عقل مندی کہیں گے؟ [نہیں] ضعیف اور جھوٹی حدیثیں دنیا میں موجود ہیں یا نہیں؟ [ہیں] اب میں نے پڑھی حدیث اور دو آدمی کھڑے ہوجائیں مجھے مشورہ دینے کے لئے کہ آپ بالکل کوئی حدیث نہ پڑھیں خواہ کتنی ہی سچی کیوں نہ ہو؟ ورنہ لوگ جھوٹی حدیثیں پڑھیں گے پھر کیا اس مشورے سے ہم سچی حدیثیں پڑھنا چھوڑ دیں گے؟ [نہیں] آپ کے ملک میں جعلی کرنسی ہوتی ہے یا نہیں [ہوتی ہے] اب کوئی مشورہ دے کہ خبردار اپنے پاس کوئی کھرا پیسہ بھی نہ رکھنا کیونکہ ملک میں جعلی کرنسی بھی موجود ہے - آپ کے پیسے پاس رکھنے سے ان کو خواہ مخواہ شہ مل جائے گی اور جعلی سکہ بازار میں چلانا شروع کردیں گے - تو کیا واقعی آپ اس ڈر سے اپنے سارے پیسے پھینک دیں گے؟ [نہیں] جعلی دوائیں دنیا میں بنتی ہیں یا نہیں؟ [بنتی ہیں] تو اب آپ یہی کہیں گے نا کہ خبردار! کوئی اچھی دوا نہ پینا کیونکہ ملک میں جعلی دوا فروش موجود ہیں - ایسا نہ ہو کہ آپ کو بھی اس گناہ میں شرکت کرنی پڑے اور آپ کے اس صحیح دوا پینے کی وجہ سے ان لوگوں کا خواہ مخواہ حوصلہ بڑھ جائے اور جعلی اور جھوٹی دوائیں بیچنا شروع کردیں
تو میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ جو بات ہے کہ اس طریقہ سے آپ سچ چھوڑتے ہیں اور جھوٹ کو مانتے ہیں - تو فقہ میں بات کیوں نہیں مانی جاتی؟ ہم کہتے ہیں کہ سچی فقہ کو ہم کسی صورت بھی چھوڑیں گے نہیں اور جھوٹی فقہ کو کسی قیمت پر مانیں گے نہیں
اور ایک ڈراوہ اور دیا جاتا ہے کہ اگر ضرور ہی فقہ نافذ کرنی ہے تو آج کل کے وکلاء ہیں ، جسٹس ہیں ، پروفیسر ہیں ، عربی جانتے ہیں - یہ بھی تو عربی سے واقف ہیں تو ان لوگوں کو بٹھادیا جائے ، کہ یہ ایک [نئی] فقہ مرتب کرلیں - تو پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ بات مجھے ایک غیرمقلد وکیل نے کہی ایک تقریر میں ، تو میں نے کہا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ کل جج آپ کے ملک میں ہیں کتنے؟ کہتا ہے تقریبآ دو ہزار ہیں - میں نے کہا کہ پہلے ہیں چار مذاہب ان میں سے صرف ایک یہاں ہے باقی تین یہاں نہیں ہیں - لیکن آپ شور مچاتے ہیں کہ چار مذہبوں میں اختلاف ہے تو جب دو ہزار فقہیں بنیں گی تو ان میں اختلاف ہوگا یا نہیں؟ کسی ملک میں دو ہزار فقہیں بیک وقت نافذ ہوسکیں گی؟ [نہیں] نافذ تو ایک ہی ہوگی ، تو جو فقہ خیرالقرون میں مرتب ہوئی ہے اس نے کیا گناہ کیا ہے کہ اس کو چھوڑ کر ان لوگوں کو بٹھایا جائے جو کردار کے اعتبار سے زانی بھی ہیں ، جو شرابی بھی ہیں اور ان کو کہا جائے کہ تم قانون اسلامی مرتب کرو - جو اپنے جسموں کے لئے قانون اسلامی مرتب کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں - تو اصل بات یہی ہے کہ جب خدا کی کسی نعمت کی ناشکری کی جاتی ہے تو پھر اللہ تعالی عقل کو چھین لیتے ہیں - انہوں نے فقہ کی ناشکری کی - اب دیکھو یہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی فقہ کے خلاف رات دن بولیں گے - اگر کوئی زانی کہے کہ یہ فقہ ہے تو کہیں گے "امنا و صدقنا" ، کوئی شراپی کہے کہ ‎میں فقہ بناتا ہوں تو سارے اس کے پیچھے لگ جائیں گے - تو میں تو کہا کرتا ہوں کہ یہ خدا کا عذاب اور قہر ہے کہ خیرالقرون کے مقابلے میں ایسی فقہ کی اجازت دینا اور ایسی فقہ کے پیچھے پڑنا
غیرمقلدین کی جہالت : تو یہ لکھا ہے کہ مسئلہ تراویح ضرور بیان کریں کہ تراویح آٹھ ہیں یا بیس؟ بھائی آٹھ اور بیس کا دنیا میں کوئی جگھڑا ہی نہیں ہے - تراویح ہیں ہی بیس ، یہ جو لوگ آج کل جھگڑا ڈال بیٹھے ہیں - یہ اصل میں جگھڑا آٹھ اور بیس کا نہیں ہے - جھگڑا ہے کہ نماز تراویح کوئی نماز ہے بھی یا نہیں - شیعہ کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ہے ہی نہیں اور وہ پڑھتے بھی نہیں - اہل سنت والجماعت کھل کر کہتے ہیں کہ نماز تراویح ایک مستقل نماز ہے جو صرف رمضان شریف میں پڑھی جاتی ہے - جیسے جمعہ صرف جمعہ کے دن پڑھا جاتا ہے - وہ بھی باقی گیارہ مہینے میں نہیں پڑھی جاتی
اب نہ تو غیرمقلدوں نے شیعوں کی طرح کھل کر انکار کیا اور نہ سنیوں کی طرح کھل کر اقرار کیا - انہوں نے کہا کہ وہ جو تہجد والی نماز ہے گیارہ مہینے اس کا نام تہجد ہوتا ہے اور بارہویں مہینے میں اس کا نام تراویح ہوتا ہے - نماز ایک ہی ہے گیارہ مہینے نام اور ہوتا ہے بارہویں مہینے نام اور ہوتا ہے
یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی کہے کہ میں گیارہ مہینے اپنی بیوی کو بیوی کہا کرتا ہوں اور بارہویں مہینے ماں کہا کرتا ہوں - تو اب کوئی عقل مند پوچھے گا کہ اب وہ گیارہ مہینے بیوی رہی اور بارہویں مہینے ماں کیسے بن گئی؟
اب یہ کہتے ہیں کہ نماز ایک ہے لیکن فرق ہوگیا
نمبر [01] گیارہ مہینے نام تہجد ، بارہویں مہینے نام تراویح
نمبر [02] گیارہ مہینے اس کا وقت رات کا آخری حصہ اور بارہویں مہینے اس کا وقت اول حصہ
نمبر [03] گیارہ مہینے وہ اکیلے پڑھی جائے گی ، بارہویں مہینے جماعت کے ساتھ پڑھی جائے گی
نمبر [04] گیارہ مہینے گھر میں ، بارہویں مسجد میں
نمبر [05] گیارہ مہینے اس میں قرآن ختم کرنا کوئی ضروری نہیں ، بارہویں مہینے قرآن ختم کرنا ضروری ہے
نمبر [06] گیارہ مہینے ان کا نام نفل ہوگا ، بارہویں مہینے اس کو سنت مؤکدہ کہا جائے گا
اب یہ جو چھ فرق انہوں نے بیان کئے ہیں ہم کہتے ہیں کہ اسی چھ فرق کی ایک حدیث ہمیں سنادیں - قیامت تک یہ ایسی حدیث نہیں سناسکتے کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خود فرمایا ہو کہ گیارہ مہینے اس کا نام یہ اور بارہویں مہینے اس کا نام یہ ہوگا
تراویح کا معنی
ان بے چاروں کو تو تراویح کا معنی بھی نہیں آتا - تراویح جمع کا لفظ ہے اس کا واحد ترویحہ ہے ، آپ چار رکعتوں کے بعد تھوڑی دیر آرام کرتے ہیں - کوئی تسبیح پڑھ لی ، اس کو کہتے ہیں ترویحہ ، تو عربی میں جمع تین سے شروع ہوتی ہے کم از کم ، اس سے پہلے شروع نہیں ہوتی - تو جب آپ نے چار رکعت پڑھ کر ایک دفعہ آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ یہ ترویحہ ہے - آٹھ رکعتیں پڑھ کر پھر آرام کیا تو ہم کہیں گے کہ ترویحتین دو ترویحے ہوگئے - تو بارہ رکعتیں پڑھ کر جب تیسری دفعہ آرام کریں گے تو کم از کم اس پر لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہے - اس سے پہلے تو لفظ تراویح استمعال ہوسکتا ہی نہیں - اگر ان بے چاروں کو تراویح کا معنی بھی آتا ہوتا تو یہ کبھی آٹھ کے ساتھ لفظ تراویح استمعال نہ کرتے
غیرمقلدین کا دھوکہ
اب یہ جو حدیثیں آپ لوگوں کو دکھاتے ہیں وہ ساری تہجد کے بارہ میں ہیں - یہ ایسے ہی مثال سمجھیں - آپ یہاں عصر کے کتنے فرض پڑھتے ہیں؟ [چار] آج میں اعلان کرتا ہوں کہ عصر کے تین فرض ہیں - آپ کہیں گے وہ کیسے؟ میں کہوں گا کہ حدیث شریف میں ہے - میں ایک حدیث بھی پڑھ دیتا ہوں جس میں تین کا لفظ آگیا تو مولوی صاحب اٹھے کہ آپ کو حدیث کیوں نہیں ملی ہم خواہ مخواہ ایک رکعت زیادہ پڑھاتے رہے - انہوں نے اس حدیث کی کتاب پر حدیث دیکھی ٹھیک لکھا تھا تین رکعت لیکن ساتھ لفظ مغرب کا تھا عصر کا نہیں تھا - تو یہ مجھے کہنے لگے کہ آپ نے تو عصر کی رکعتیں بتانی تھیں - یہ تو مغرب کی رکعتیں ہیں ، تو میں کہتا ہوں کہ آپ کو نہیں پتہ کہ یہ عصر اور مغرب ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
بالکل یہی کیفیت ان کی ہے - کہتے ہیں کہ اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ نہیں پڑھا کرتے تھے ، تو ہم کہتے ہیں کہ ساری دنیا جانتی ہے کہ جو نماز سارا سال پڑھی جاتی ہے اس کا نام تہجد ہے - تو یہ تو تہجد کی حدیث ہے - تو کہتے ہیں کہ پھر آپ کو تو پتہ ہی نہیں - یہ تہجد اور تراویح ایک ہی نماز کے دو نام ہیں
اب ہم یہ پوچھتے ہیں کہ حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جب بیس رکعت باجماعت ہورہی تھی - اماں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا حیات تھی یا نہیں؟ [تھیں] ان میں نبی کی سنت کا اتنا جذبہ تھا جتنا آج کے غیر مقلدوں میں ہے؟ [زیادہ تھا] وہ کیسے؟ پہلے آج کا جذبہ سن لیں
غیر مقلدین کا جذبۂ اتباع سنت
آج ایک آدمی رمضان میں اس نے بالکل روزہ نہیں رکھا - کوئی نماز نہیں پڑھی - اس کے خلاف غیرمقلد کبھی کوئی اشتہار شائع نہیں کریں گے - نہ اسے کچھ کہیں گے جاکر ، یہ ہماری بے چاری تبلیغی جماعت ہے نا ، لوگوں نے ان کا نام رکھا ہے لسوڑہ پارٹی ، یہ جس کو چمٹ جاتے ہیں اس کو ایک دفعہ مسجد دکھا دیتے ہیں ، آگے اس کی مرضی - تو اب دیکھئے ان کا کام ہے بے نمازیوں کے پاس جانا بے چارے منتیں کرتے ہیں - ان کو لے آتے ہیں ایک دفعہ مسجد میں ، غیرمقلد کبھی بے نماز کے پاس نہیں جاتے ، جب ہماری تبلیغی جماعت نے منتیں کرکے نماز پر لگالیا تو اب وہ ہوگیا نمازی ، اب یہ غیرمقلد آجاتا ہے - کوئی ادھر سے آئے گا کوئی ادھر سے آئے گا - تیری نہیں ہوتی ، دوسرا ادھر سے آئے گا تیری نہیں ہوتی - تو یہ فرقہ ہے نمازیوں کے دلوں میں وسوسے ڈالنے والا ، جب تک کوئی نماز نہیں پڑھتا اس وقت تک یہ کچھ نہیں کہتے جاکر - تو یہی حال رمضان شریف میں ہے - جس نے پانچوں نمازیں نہیں پڑھیں - روزہ نہیں رکھا ، نہ اس کے خلاف کوئی تقریر ہے ، نہ کوئی اشتہار ہے ، نہ کوئی انعامی چیلنج ہے
اب جس بے چارے نے روزہ رکھا ، پانچوں جماعتوں میں تکبیر اولی میں شریک ہوا - اب رات کو بے چارہ تراویح بیس پڑھ بیٹھا ، جناب اس کے کپڑے پھاڑیں گے - بیس ہزار روپے کا چیلنج پچیس ہزار روپے کا چیلنج ، اس بے چارے نے یہ گناہ کرلیا کہ بیس تراویح پڑھ بیٹھا
اب دیکھئے کہ فرشتے گیارہ مہینے جنت کو آراستہ کرتے ہیں رمضان کی خوشی میں ، اور غیرمقلد گیارہ مہینے میٹنگیں کرتے ہیں کہ پچھلے سال خانپور کی کس مسجد میں تراویح پر لڑائی نہیں کرائی تھی - اس دفعہ وہاں جاکر ضرور لڑائی کرانی ہے
اب آپ ان بے چاروں کا مشن دیکھیں ، ہے کیا - ہماری تبلیغی جماعت نماز پر لگاتی ہے - اب یہ کہتے ہیں کہ تیری نہیں ہوتی تیری نہیں ہوتی - یہ پھر بڑے خوش ہیں
یہ تبلیغی جماعت والے جب واپس جاتے ہیں نا رائیونڈ تو وہاں اپنی کاروائی سناتے ہیں - ہم نے یہ کہا اور ہمیں یہ کہا ، ہم نے یوں کیا - یہ غیرمقلد بھی رات کو بیٹھ جاتے ہیں اور کاروائی سناتے ہیں - ایک کہتا ہے کہ آج میں نے تین حاجیوں کو کہا تھا کہ تو بے نماز ہے - دوسرا کہتا ہے کہ میں نے کہا تھا کہ تو مشرک بھی ہے - وہ کہتے ہیں شاباش تو زیادہ اچھا ہے - تیسرا کہتا ہے کہ میں نے آج سارا دن چھٹی لی تھی - اور پھر پھر کر ایک ایک دوکان پر کہہ رہا تھا کہ تم بے نماز ہو تمہاری نماز نہیں ہوتی - کہتے ہیں کہ جنت کا سرٹیفکیٹ آج تو لے کر آیا ہے - سب کچھ تو کرکے آیا اتنا اچھا کام
تو اب دیکھئے بعض ہمارے حنفی دوست بھی ان کی دیکھا دیکھی نکل جاتے ہیں - آٹھ پڑھ کر ، میں آپ سے ایک مسئلہ پوچھ کر بات ختم کرتا ہوں ظہر سے پہلے آب کتنی سنتیں پڑھتے ہیں؟ [چار] یہ مؤکدہ ہیں یا غیر مؤکدہ؟ [مؤکدہ] ایک مشورہ میں آپ کو دوں گا ، مہینے میں آپ ایک دن کے بجائے دو پڑھا کریں - ٹھیک ہے؟ [نہیں] کیوں؟ مہینے میں ایک مرتبہ تو دیکھو آپ کے تصور میں بھی کبھی یہ بات نہیں آئے گی کہ ہم چار سنتوں کو دو پڑھیں - آئے گی؟ [نہیں] اسی طرح بیس رکعت تراویح سنت مؤکدہ ہے - جس طرح ظہر کی چار رکعتوں کو دو پڑھ کر چلے جاتے ہیں وہ دو سنتوں کو ضائع کرتے ہیں - اور کس مہینے میں جس میں نفل کا ثواب فرض کے برابر ہوتا ہے - دو سنتیں کون سی ضائع کرتے ہیں؟ ایک تو یہ آٹھ پڑھ کر چلے گئے بارہ نہیں پڑھیں تو سنت پوری نہیں ہوئی - دوسرا قرآن بھی پورا نہیں سنا - ایک قرآن پڑھنا یا سننا یہ سنت ہے
تو اب اندازہ لگائیں رمضان شریف میں تو لوگ کوشش کرتے ہیں کہ نوافل بھی زیادہ پڑھے جائیں - کوشش کرتے ہیں نا اللہ کے نیک بندے؟ [جی] اور غیرمقلد بے چاروں کی تو بات ہی نہیں ، دیکھو وہ نماز کے دشمن ہیں نا غیرمقلد؟ [جی] تو خدا نے ان پر ایک عذاب بھیجا ہوا ہے - شاید آپ نے دیکھا ہوا ہے - آگے پیچھے خارش ہو یا نہ ہو نماز میں ان کو ضرور خارش ہوتی ہے - کبھی یہاں انگلی ہے ، کبھی یہاں ہے ، کبھی یہاں ہے - اب جب نماز شروع ہوئی تو اللہ تعالی نے ان پر خارش مسلط کری ہوئی ہے - پس جب نماز سے فارغ ہوئے نہ کوئی خارش نہ کچھ ، سکون سے نماز پڑھ سکتا ہی نہیں - غیرمقلد یہ کہتا ہے کہ تمہاری نماز نہیں ہوتی لیکن ان کا نقشہ دیکھنے والا ہوتا ہے کہ ان غیرمقلدوں کی کیسے ہوتی ہے؟
تو اس لئے بیس رکعت تراویح جو ہیں یہ سنت مؤکدہ ہیں جو کہیں کہ آٹھ ہیں - آپ صرف ان سے ایک بات پوچھیں کہ آٹھ رکعت کے ساتھ تراویح کا لفظ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ، کسی خلیفہ راشد رضی اللہ عنہم سے ، کسی ایک صحابی رضی اللہ عنہ سے ، کسی ایک تابعی رحمہ اللہ سے ، کسی ایک تبع تابعی رحمہ اللہ سے دکھادیں؟ ہم پچیس ہزار انعام دیں گے
پورے خیرالقرون میں آٹھ رکعت کے ساتھ نماز تراویح کا لفظ ملتا ہی نہیں - بیس کے ساتھ ہم دکھائیں گے
حضرت علی رضی اللہ عنہ اکھٹا کرتے ہیں قاریوں کو ، فرماتے ہیں کہ تراویح پڑھاؤ "خمس ترویحات عشرین رکعة" - تراویح کا لفظ ساتھ موجود ہے - بیس رکعت کے ساتھ ہم دکھاسکتے ہیں ، لیکن آٹھ کے ساتھ تراویح کا لفظ یہ سارے غیرمقلد مل کر نہیں دکھاسکتے
تو اس لئے ہمارے جو حنفی دوست اتنی سستی کرتے ہیں - ان کے بارے میں کہہ رہا ہوں کہ آگے پیچھے لوگ تہجد کے لئے مشکل سے اٹھتے ہیں - رمضان میں اٹھ کر بھی تہجد سے محروم ہیں وہ تہجد نہیں پڑھتے ، لیکن آپ لوگ جو ہیں یہ تہجد بھی پڑھیں اور تراویح بھی بیس پوری پڑھیں
وآخر دعونا ان الحمد للہ رب العلمین
خطبات صفدر جلد اول صفحہ 197 تا 225

0 تبصرے comments:

اگر ممکن ہے تو اپنا تبصرہ تحریر کریں

اہم اطلاع :- غیر متعلق,غیر اخلاقی اور ذاتیات پر مبنی تبصرہ سے پرہیز کیجئے, مصنف ایسا تبصرہ حذف کرنے کا حق رکھتا ہے نیز مصنف کا مبصر کی رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ کے کمپوٹر میں اردو کی بورڈ انسٹال نہیں ہے تو اردو میں تبصرہ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کرکے شائع کردیں۔