Wednesday 8 November 2017

تقلید کیوں ضروری ھے ؟

تقلید کیوں ضروری ھے ؟

بہت سے لوگ اعتراض کرتے ہیں کہ جب ہم خود قرآن و حدیث پڑھ سکتے ہیں اور احادیث کی کتابوں سے اور قرآن سے اپنے مسائل کا حل دریافت کر سکتے ہیں تو پھر ہمیں مجتہدین کی تقلید کی کیا ضرورت ہے؟
جواب
اگر کسی کو علوم قرآن اور علوم حدیث میں اتنی ہی نظر ہو تو پھر وہ شخص خود مجتہد ہے اور اسے واقعی کسی کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اگر کوئی قرآن میں ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ، مطلق و مشروط آیات، لغات عرب کا عالم ہو اور حدیث کے مندرجہ ذیل علوم کا ماہر ہوتو پھر واقعا اس پر سے تقلید ساقط ہی ہو جائے گی اور وہ علوم احادیث درج ذیل ہیں جن کو مجتہد بننے کے لئے حاصل کرنا ضروری ہے۔
1 محدث کی صداقت کا علم
2 اسناد حدیث کا علم
3 حدیث عالی کا علم
4 حدیث نازل کا علم
5 روایات موقوفہ کا علم
6 ان اسناد کا علم جس کی سند پیغمبر اسلام سے ذکر نہ ہو
7 صحابہ کے مراتب کا علم
8 احادیث مرسلہ اور ان کے سلسلے میں پیش کی جانے والی دلیلوں کی معرفت
9 تابعین سے نقل کی گئی احادیث کا علم
10 اسناد مسلسل کا علم
11 احادیث معنعنہ کا علم
12 روایات معضل کا علم
13 احادیث مدرج کی پہچان کا علم
14 تابعین کی شناخت کا علم
15 تباع تابعین کی معرفت
16 اکابر و اصاغر کی معرفت
17 اولاد اصحاب کی معرفت
18 علم جرح و تعدیل کی معرفت
19 صحیح و سقیم کی پہچان
20 فقہ الحدیث کا علم
21 ناسخ و منسوخ احادیث کا علم
22 متن میں جو غریب (نامانوس) الفاظ استعمال ہوں ان کا علم
23 احادیث مشہور کا علم
24 غریب اور نامانوس احادیث کا علم
25 احادیث مفرد کی پہچان کا علم
26 ان لوگوں کی معرفت جو حدیث میں تدلیس کر دیتے ہیں
27 حدیث کی علتوں کا پہچاننا
28 شاذ روایات کا علم
29 پیغمبر کی ان حدیثوں کا جانچنا جو دوسری احادیث سے معارض نہ ہو
30 ان حدیثوں کی معرفت جن کا کوئی رخ کسی رخ سے معارض نہ ہو
31 احادیث میں الفاظ زائد کی معرفت
32 محدیثین کے مذہب کی اطلاع
33 متون کی تحری غلطیوں سے آگاہی
34 مذاکرہ حدیث کا جانچنا اور مذاکرہ کرتے ہوئے راستگو کی معرفت
35 اسناد میں محدثین کی تحریری غلطیوں کی اطلاع
36 صحابہ، تابعین اور ان کے بھائیوں،بہنوں  کی عصر حاضر تک معرفت
37 ان صحابہ، تابعین،تباع تابعین کی معرفت جن میں سے بس ایک راوی نے روایت کی ہو
38 ان صحابہ تابعین اور ان کے پیرئووں میں سے جو راوی ہیں عصر حاضر تک ان کے قبائل کی معرفت
39 صحابہ سے عصر حاضر تک کے محدثین کے انساب کا علم
40 محدثین کے ناموں کا علم
41 صحابہ، تابعین، تباع تابعین اور عصر حاضر تک ان کے پیرئوں کی نیت کا جاننا
42 روایان حدیث کے وطن کی پہچان
43 صحابہ، تابعین، تباع تابعین کی اولاد اور ان کے غلاموں کی معرفت
44 محدثین کی عمر کی اطلاع۔ولادت سے وفات تک
45 حدثین کے القابات کی معرفت
46 ان راویوں کی معرفت جو ایک دوسرے سے قریب ہیں
47 راویوں کے قبائل، وطن، نام، کنیت اور ان کے پیشوں میں متشابہات کی پہچان
48 غزوات پیغمبر ان کے ان خطوط وغیرہ کا علم جو انہوں نے بادشاہوں کو تحریر فرمائے
49 اصحاب حدیث نے جن ابواب کو جمع کیا ہے ان کی معرفت اور اس بات کی جستجو کہ ان میں سے کون سا حصہ ضائع ہو گیا ہے
50 اس کے علاوہ احادیث کی مندرجہ ذیل اقسام کا علم بھی ہونا چاہئیے۔
1صحیح
2 حسن
3 ضعیف
4 مسند
5 متصل
6 مرفوع
7 موقوف
8 مقطوع
9 مرسل
10 معضل
11 تدلیس
12 شاذ
13 غریب
14 معنعن
15 معلق
16 مفرد
17 مدرج
18 مشہور
19 مصحف
20 عالی
21 نازل
22 مسلسل
23 معروف
24 منکر
25 مزید
26 ناسخ
27 منسوخ
28 مقبول
29 مشکل
30 مشترک
31 موتلف
32 مختلف
33 مطروح
34 متروک
35 مول
36 مبین
37 مجمل
38 معلل
39 مضطرب
40 مہمل
41مجہول
42 موضوع
43 مقلوب
44 حدیث ماثور
45 قدسی
46 عزیز
47 زائد الثقہ
48 موثوق
49 متواتر
اب اگر کوئی شخص تقلید نہ کرنا چاہے تو ٹھیک ہے وہ ان تمام علوم کوحاصل کرے اور احادیث و قرآن سے اپنے مسائل کا حل نکالے اور جو ایسا نہ کرسکے  یا اس کے پاس اتنا وقت نہ ہو تو اس کے پاس سوائے تقلید کرنے کا اور کونسا راستہ رہ جاتا ہے؟


نقل شدہ ۔ ۔ ۔
مکمل تحریر >>

Wednesday 17 May 2017

اشکال آیت: بارش اور ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کاعلم

اشکال آیت: بارش اور ماں کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کاعلم



بڑی تعداد میں مستشرقین و ملحدین قرآن و سنت کے مختلف گوشوں کو غلط ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اپنی مرضی کے ”منطقی دلائل“ پیش کر کے کہا جاتا ہے کہ فلاں بیان فلاں وجہ سے صحیح نہیں ہے۔ یہ لوگ آیات کا سیاق و سبا ق اپنی مرضی کا کشید کرتے ہیں یا سیاق و سباق کو بالکل نظر انداز کرتے ہوئے صرف آیت کی سٹیٹمنٹ کو ہی کافی سمجھتے ہیں ۔ جبکہ قرآن مجید کی کسی آیت کے صحیح مطلب کو سمجھنے کے لئے اس آیت کا شان نزول اور آیت میں استعمال زبان کو صحیح طور پر سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔ کسی آیت کے متعلق سمجھنا درست نہیں کہ وہ تنہا کھڑی ہے اور بغیر کسی بیرونی معلومات کے سمجھی جا سکتی ہے۔ قرآن مجید کی ایک آیت جس کا عموماً غلط مفہوم کیا جاتا ہے، جس میں رحم مادر اوراوقاتِ بارش کے متعلق اللہ تعالی کے اختصاصی علم کے متعلق بات کی گئی ہے ، اس آرٹیکل میں جدید سائنس کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ واضح کیا گیا ہے کہ کیسے اس متعلق مدعیان کے دعوے بے بنیاد ہیں۔
تعارف
قرآن مجید کے متعلق اٹھائے گئے عمومی سوالات میں سے ایک سوال اس آیت کے متعلق ہے:
إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ ۔
بےشک قیامت کا علم الله ہی کو ہے اور وہی بارش برساتا ہے اور وہی جانتا ہے جو کچھ رحموں میں ہے۔ اور کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا عمل کرے گا اور یہ کہ وہ کس زمین میں مرے گا ۔بےشک الله تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔ (لقمان 31:34)
جب سے موسم کی کیفیت کے متعلق پیشگوئی کرنا اور مادر شکم میں پیدا ہونے والے بچہ کی جنس کا پتا لگا لینا ممکن ہوا ہے، یہ اعتراض عام دوہرایا جارہا ہے کہ سائنس کی ترقی نے اس آیت کو غلط ثابت کر دیا ہے۔ اس آیت کو سمجھنے کے لئے ہمیں آیت کے پس منظر پر اور آیت میں علم کی کون سی قسم مذکورہ ہے اس پر غور کرنا ہو گا۔
آیت صرف علم غیب کے متعلق بات کرتی ہے
آیتِ موضوع میں صرف اور صرف علم غیب کے متعلق ہے نہ کہ دوسری طرح کے علوم کے متعلق۔ سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں۔
اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے حضور ﷺ کے ایک صحابی حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
عن ابن عباس:” وعنده مفاتح الغيب “قال: هن خمس: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنزلُ الْغَيْثَ إلى إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ، سورۃ لقمان 34(تفسیر طبری جلد 11 صفحہ 402 الرقم:13307 مطبوعہ مؤسسۃ الرسالۃ 2000)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ” وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ “ پانچ چیزیں ہیں، جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو بھی نہیں ہے کہ قیامت کب آئے گی، بارش کب ہو گی اور رحموں میں کیا ہے۔ اور کسی نفس کو علم نہیں کہ کل کیا ہو گا ، اور کسی نفس کو علم نہیں کہ اس کو موت کہاں آئے گی۔ بے شک اللہ تعالیٰ سب باتوں کا جاننے والا خبیر ہے۔
علم غیب کیا ہے؟
سب سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ غیب کا مطلب کیا ہے۔ جید حنفی سکالر النسفی(المتوفی 710ھ) لکھتے ہیں:
والغيب وهو ما لم يقم عليه دليل“(تفسیر نسفی جلد 2 صفحہ 617 مطبوعہ دار الکلم طیب بیروت1998ء)
اور غیب وہ ہے جس پر کوئی ثبوت نہیں ہے“۔
لہٰذا وہ علم جو وحی سے یا مشاہدے کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے وہ ”علم غیب“ نہیں ہے چنانچہ انکے ذریعے کسی کا جنس کا پتا لگا لینا یا موسمی کیفیت کا مظاہر کو دیکھتے ہو پیشگوئی کرنا اس آیت کے زیر نہیں آتا۔
آیت کا شان نزول
آیت سے صرف یہ مراد نہیں کہ صرف مذکورہ پانچ چیزیں ہی اللہ تعالیٰ کے علم مطلق میں ہیں، بلکہ یہ پانچ چیزیں، پانچ سوالات کے جواب میں بتلائیں گئیں ہیں جیسے کہ سیاق سباق سے ذیل میں بتلایا گیا ہے۔
وارث بن عمرو نامی ایک بدو حضور ﷺ کے پاس آیا اور ان سے پوچھا کہ: ”قیامت کب آئے گی؟ پھر اس نے پوچھا کہ ہماری زمینیں قحط زدہ ہیں، بارش کب ہو گی؟ میں اپنی بیوی کو اس حالت میں چھوڑ آیا کہ وہ حاملہ تھی، میری حاملہ بیوی کیا جنے گی؟ میں نے کل اور آج جو کچھ کیا وہ تو مجھے معلوم ہے مگر میں آئندہ کل کیا کروں گا ؟ اور یہ کہ مجھے اپنی جائے پیدائش کا علم ہے مگر میری موت کہاں واقع ہوگی ؟“۔ یہ آیت اس بدو کے جواب میں نازل ہوئی کہ ان چیزوں کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔(فتح القدیر للشوکانی جلد 4 صفحہ 282 مطبوعہ دار ابن کثیر دمشق 1414ھ)
علامہ مودودی وضاحت فرماتے ہیں:
یہاں ایک بات اور بھی اچھی طرح سمجھ لینی ضروری ہے ، کہ اس آیت میں امور غیب کی کوئی فہرست نہیں دی گئی ہے جن کا علم اللہ کے سوا کسی کو نہیں ہے ۔ یہاں تو صرف سامنے کی چند چیزیں مثالاً پیش کی گئی ہیں جن سے انسان کی نہایت گہری اور قریبی دلچسپیاں وابستہ ہیں اور انسان اس سے بےخبر ہے ۔ اس سے نتیجہ نکالنا درست نہ ہو گا کہ صرف یہی پانچ امور غیب ہیں جن کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا ۔ حالانکہ غیب نام ہی اس چیز کا ہے جو مخلوقات سے پوشیدہ اور صرف اللہ پر روشن ہو، اور فی الحقیقت اس غیب کی کوئی حد نہیں ہے “۔(تفہیم القرآن جلد 4 صفحہ 29 مطبوعہ ادارہ ترجمان القرآن لاہور)
زیر بحث آیت میں علم سے کیا مراد ہے؟
یہ بالکل واضح ہے کہ یہاں علم سے مراد اس طرح کا علم نہیں جس میں اندازہ دہی کے لئے بھی کچھ علمی ڈگریوں کی ضرورت ہو، جو علم کئی طریقوں سے حاصل کیا جا سکتا ہے مثلاً خوابوں، سازو سامان، سوجھ و بوجھ کے ذریعے وغیرہ، اس طرح کا علم اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص نہیں بلکہ در حقیقت یہ اللہ تعالیٰ کے علم سے مناسبت بھی نہیں رکھتا۔ مثلاً ایک شخص بادلوں سے اندازہ لگائے کہ بارش برسے گی، سورۃ القمان کی زیر بحث آیت میں اس طرح کا علم مراد ہی نہیں ہے۔ عظمتِ خداوندی بھی اس بات کے شایان شان ہے کہ یہ علم کی وہ قسم ہونی چاہیے جو صرف اور صرف اللہ تعالیٰ سے منسوب ہو اور اس کی ذات واحد سے خاص ہو۔ چنانچہ وہ علم جو ہر ایک کو معلوم ہے وہ بھی اللہ تعالیٰ کے ساتھ منسوب ہو گا۔ اور وہ تمام مشترکہ علم بھی اللہ تعالیٰ کو معلوم ہے۔اختصار کی غرض سے ہم وسیع معنوں میں اللہ تعالیٰ کے علم کی دو حصوں میں درجہ بندی کر سکتے ہیں:
۱)وہ علم جو کسی بھی ذریعہ سے حاصل نہیں کیا جا سکتا یعنی علم غیب۔
۲)وہ علم جو ہر چیز کا اور اس کی ہر یک تفصیل کا گھراؤ کئے ہوئے ہے یعنی علم محیط۔
درج ذیل آیت اس بات کو واضح کرتی ہے:
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَا يَعْلَمُهَا إِلَّا هُوَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ (الانعام 6:59)
اور اسی کے پاس غیب کی کنجیاں ہیں جن کو بجز اس کے اور کوئی نہیں جانتا اور اس کو خشکی اور تری کی سب چیزیں معلوم ہیں“۔
یہ آیت علم غیب کے علاوہ کامل اور ہر چیز پر محیط علم کے متعلق ہے، جیسا کہ” مَا “ کے لفظ سے پتا چلتا ہے جو یہاں ہر چیز کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔
انسانی علم ان دونوں قسموں میں سے نہیں
انسانی علم نہ تو انڈیپینڈینٹ ہے اور نہ ہی قطعی۔ ایک ڈاکٹر کسی شخص کی نبض پر ہاتھ رکھ کر کئی نتائج حاصل کر سکتا ہے مگر یہ علم کسی ذریعہ سے حاصل شدہ ہے۔ اسی طرح ایک شخص دور سے اٹھتے دھوئیں کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ وہاں آگ ہے، لیکن اس شخص نے اٹھتے ہوئے دھوئیں سے یہ علم حاصل کیا ہے۔ اس لئے اس علم کو علم غیب نہیں کہا جا سکتا ۔ کیونکہ ہم پہلے ہی جانتے ہیں کہ مہیا کیا گیا یا انتقال شدہ علم، علم غیب نہیں ہو سکتا ہے۔ مختصر یہ کہ کوئی بھی علم جو کسی ذریعہ پر منحصر ہے علم غیب نہیں کہلایا جا سکتا۔ جیسے مثال کے طور پر اگر کسی ڈاکٹر سے حاملہ عورت کے لائے بغیر پوچھا جائے کہ اس عورت کے پیٹ میں موجود بچے کی جنس کیا ہے؟ تو ڈاکٹر یہ بتانے سے قاصر ہے، کیونکہ اس کا علم منحصر علی الذات ہے۔ اسی وجہ سے یہ علم زیر بحث آیت کے بیان کے انڈر نہیں آتا۔
مزید ایسے ہی سائنسی علم قطعی نہیں ہے۔ بارش کے متعلق جاننا شاید آسان ہو مگر یہ قطعی طور پر نہیں کہا جا سکتا ہے کہ دنیا میں، ہر ایک جگہ پر کب اور کتنی بارش ہو گی۔ جیسا کہ فرشتے بارش کو برسانے کا فعل انجام دیتے ہیں مگر ان کے بھی علاقہ جات مختص ہوتے ہیں جن کے متعلق ان کو علم دیا جاتا ہے۔ علم قطعی و کامل صرف اللہ تعالیٰ کی ذات برحق کو ہے۔
رحم مادر میں کیا ہے کے علم کا انتقال ممکن ہے
سورۃ لقمان کی اس آیت 34میں اکیلے خدا کی ملکیت علم کو ظاہر کرنے کے لئے لفظ ”عند“ استعمال ہوا ہے اور یہی لفظ ثواب کے لیے بھی استعمال کیا گیا ہے ، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علوم دوسروں کو بھی عطا کئے جا سکتے ہیں۔ رحم مادر میں موجود بچہ کے جنس معلوم کر لینے کے متعلقہ سائنسی علوم میں ہونے والی اس ترقی سے بہت پہلے مسلمان علماء نے ذکر کر دیا تھا کہ یہ علوم دوسروں کو عطا کئے جا سکتے ہیں۔ علامہ آلوسیؒ تفسیر روح المعانی میں لکھتے ہیں:
أنه عزّ وجلّ إذا أمر بالغيث وسوقه إلى ما شاء من الأماكن علمته الملائكة الموكلون به ومن شاء سبحانه من خلقه عزّ وجلّ، وكذا إذا أراد تبارك تعالى خلق شخص في رحم يعلم سبحانه الملك الموكل بالرحم بما يريد جلّ وعلا كما يدل عليه ما أخرجه البخاري عن أنس بن مالك عن النبي صلّى الله عليه وسلم قال: «إن الله تعالى وكل بالرحم ملكا يقول: يا رب نطفة يا رب علقة يا رب مضغة فإذا أراد الله تعالى أن يقضي خلقه قال: أذكر أم أنثى شقي أم سعيد فما الرزق والأجل؟ فيكتب في بطن أمه فحينئذ يعلم بذلك الملك ومن شاء الله تعالى من خلقه عزّ وجلّ۔
جب اللہ کسی جگہ بارش برسانے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ متعلقہ جگہ پر مامور بارش کے فرشتوں کو اس کا علم دے دیتا ہے، اسی طرح مخلوق میں سے جس کو وہ چاہتا بتا دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جب اللہ تعالیٰ شکم مادر میں کیسی کو پیدا کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو وہ اس کام پر مامور فرشتوں کو علم دہ دیتا ہے جو اس کام کو سر انجام دیتے ہیں۔ پس جیسا کہ ہم صحیح بخاری میں دیکھتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے رحم مادر پر ایک فرشتہ مقرر کر دیا ہے اور وہ کہتا رہتا ہے کہ اے رب ! یہ نطفہ قرار پایا ہے ۔ اے رب ! اب علقہ یعنی جما ہوا خون بن گیا ہے ۔ اے رب ! اب مضغہ ( گوشت کا لو تھڑا ) بن گیا ہے ۔ پھر جب اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ اس کی پیدائش پوری کرے تو وہ پوچھتا ہے اے رب لڑکا ہے یا لڑکی ؟ نیک ہے یا برا ؟ اس کی روزی کیا ہو گی ؟ اس کی موت کب ہو گی ؟ اسی طرح یہ سب باتیں ماں کے پیٹ ہی میں لکھ دی جاتی ہیں۔(الرقم:6595) “ اور ان سب باتوں کا علم فرشتہ خدا سے پاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ چاہے یہ علم عطا کر دیتا ہے۔(روح المعانی جلد 11 صفحہ 109 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت 1415ھ)
اسی طرح تاریخ میں اس سے بھی پہلے ہم دیکھ سکتے ہیں ، علماء اس علم کے انتقال کی بات کرتے ہیں ۔ تفسیر ابن کثیر میں حافظ عماد الدین ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
هَذِهِ مَفَاتِيحُ الْغَيْبِ الَّتِي اسْتَأْثَرَ اللَّهُ تَعَالَى بِعِلْمِهَا، فَلَا يَعْلَمُهَا أَحَدٌ إِلَّا بَعْدَ إِعْلَامِهِ تَعَالَى بِهَا، فَعِلْمُ وَقْتِ السَّاعَةِ لَا يَعْلَمُهُ نَبِيٌّ مُرْسَلٌ وَلَا مَلَكٌ مُقَرَّبٌ لَا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلَّا هُوَ، وَكَذَلِكَ إِنْزَالُ الْغَيْثِ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِهِ عَلِمَتْهُ الْمَلَائِكَةُ الْمُوَكَّلُونَ بذلك، ومن يشاء اللَّهُ مَنْ خَلْقِهِ، وَكَذَلِكَ لَا يَعْلَمُ مَا في الأرحام مما يريد أن يخلقه تَعَالَى سِوَاهُ، وَلَكِنْ إِذَا أَمَرَ بِكَوْنِهِ ذِكْرًا أَوْ أُنْثَى أَوْ شَقِيًّا أَوْ سَعِيدًا، عَلِمَ الملائكة الموكلون بذلك، ومن شاء الله من خلقه، وكذا لَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا فِي دُنْيَاهَا وَأُخْرَاهَا وَما تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ فِي بَلَدِهَا أَوْ غَيْرِهِ مِنْ أَيِّ بِلَادِ اللَّهِ كَانَ، لَا عِلْمَ لِأَحَدٍ بِذَلِكَ
یہ غیب کی وہ کنجیاں ہیں جن کا علم اللہ تعالی نے کسی اور کو نہیں دیا ۔ مگر سوائے اُس کے جس کو اللہ علم عطا فرمائے ۔ قیامت کے آنے کا صحیح وقت نہ کوئی نبی مرسل جانتا تھا اور نہ کوئی مقرب فرشتہ، اس کا وقت کا علم صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ اسی طرح بارش کب اور کہاں اور کتنی برسے گی اس کا علم بھی کسی کو نہیں ہاں جب فرشتوں کو حکم ہوتا ہے جو اس پر مقرر ہیں تب وہ جانتے ہیں اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے۔ اسی طرح حاملہ کے پیٹ میں کیا ہے؟ اسے بھی صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ مگر وہ جب مامور فرشتے کو حکم دیتا کہ یہ نر ہو گا یا مادہ؟، نیک ہو گا یا بد ؟ تو مامور فرشتے کو اس کا علم ہو جاتا ہے اور مخلوق میں سے جسے اللہ معلوم کرائے ۔ اسی طرح کسی کو یہ معلوم نہیں کہ وہ کل یہاں یا قیامت کے حساب سے کیا کمائے گا ۔ اسی طرح کسی نفس کو علم نہیں کہ وہ کہاں مرے گا۔ آیا اپنی زمین پر مرے گا یا کہیں ؟ یہ کوئی نہیں جانتا۔(تفسیر ابن کثیر جلد 6 صفحہ 315 مطبوعہ دار الکتب علمیہ بیروت1418ھ)
قرآنی آیت کی یہ تفاسیر اس وقت کے جید علمائے اسلام کی ہیں جس دور میں جدید سائنسی ترقی نہیں ہوئی تھی۔ پس فرشتوں کا علم بھی اللہ تعالیٰ کے ”علم غیب“ کا محتاج ہے۔ چنانچہ اسی طرح کوئی اگر کوئی کسی ذریعے سے حاملہ بچے کی حالت کا علم حاصل کرلیتا ہے تو یہ بات اس قرآن ی آیت کے خلاف نہیں جاتی۔ بے شک اسلام وقت کی کسوٹی پر کھرا اترتا ہے۔
مَا فِي الْأَرْحَامِ کے دوسرے معانی
کچھ علماء نے مَا فِي الْأَرْحَامِ سے مراد نا مولود بچے کی جنس کے متعلق علم لیا ہے اور کچھ نے اس علم سے مراد صرف جنس نہیں لی بلکہ کئی اور چیزیں مثلاً بچے کا رنگ، وہ بچہ خوش ہو گا یا نہیں، اس بچے کا ذریعہ معاش کیا ہو گا وغیرہ۔ مذکورہ بالا حدیث صحیح بخاری بھی اس رائے کو تقویت بخشتی ہے اور اس رائے پر مزید کوئی سوال اٹھنے کا جواز نہیں بچتا۔ تاہم بدو کے سوال کی وجہ سے نامولود بچے کی جنس کا علم بھی ایک صحیح نقطہ ہے۔ یہ زیادہ صحیح ہو گا کہ مَا فِي الْأَرْحَامِ سے نا صرف بچے کی جنس کے متعلق علم لیا جائے بلکہ مذکورہ بالا علوم کو بھی اس میں شامل رکھا جائے۔
خلاصہ
مَا فِي الْأَرْحَامِ“یعنی” حاملہ عورت کے پیٹ میں کیا ہے؟ “کے علم کی دو درجہ بندیاں علم غیب اور علم محیط ہیں۔ چاہے ڈاکٹروں کا بچے کی جنس کے متعلق علم ہو یا موسمی پیشگوئیوں جو قدرتی مظاہر کی محتاج ہیں ، دونوں ان اقسام علم سے نہیں ہیں۔ باوجود اس کے کہ قرآن پاک خود اور جید علمائے اسلام نے بھی صراحت کی ہے کہ ان چیزوں کا علم بھی اللہ جیسے چاہے عطا کر سکتا ہے۔ چاہے وہ وحی کے ذریعہ سے ہو یا چاہے وہ مشاہدات کی بنیاد پر ہو۔

تحریر عدیل طارق خان



مکمل تحریر >>

Monday 17 October 2016

صحابہ ؓ معیارِ حق ہیں

🌹 صحابہ معیار حق ہیں 🌹

افادات: مسند الہند حکیم الاسلام حضرت مولانا شاہ ولی اللہ صاحب محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالیٰ 

شارح: حضرت مولانا مفتی سعید احمد پالن پوری صاحب دامت برکاتہم شیخ الحدیث و صدر المدرسین دارالعلوم دیوبند

ناقل: عادل سعیدی پالن پوری

         خاتم النبین ﷺ  سے پہلے ہر نبی مخصوص قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا، بخاری شریف میں ہے: کان النبی ﷺ یبعثُ الیٰ قومہ خاصةً، و یبعثُ الی الناس کافةً ( ہر نبی اس کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھا، اور میں تمام لوگوں کی طرف مبعوث کیا گیا ہوں ) اور اس وقت چونکہ نبوت کا سلسلہ جاری تھا، اس لئے ایک نبی کے بعد دوسرا نبی اس کا قائم مقام بنتا تھا، اس وقت امتیں مبعوث نہیں ہوتی تھیں، مگر خاتم النبین ﷺ  کے بعد چونکہ نبوت کا سلسلہ بند ہوگیا، اس لئے پیغام رسانی کے لئے آپ ﷺ کی امت کو بھی مبعوث فرمایا گیا، صحیحین میں روایت ہے: کانت بنو اسرائیل تسوسھم الانبیاءُ، کلما ھلک نبی خلفہ نبی، و انہ لانبی بعدی ( بنی اسرائیل کے امور کی تدبیر و انتظام حضرات انبیاء علیھم الصلوٰۃ والسلام کرتے تھے، جب ایک نبی کا انتقال ہوجاتا، تو دوسرا نبی اس کا قائم مقام بن جاتا، اور بیشک شان یہ ہے کہ میرے بعد کوئی ( نیا ) نبی نہیں ہے ) جو میری قائم مقامی کرے، آپ ﷺ کے بعد آپ کی قائم مقامی آپ ﷺ کی امت کرے گی۔

       نیز گذشتہ انبیائے کرام علیہم الصلوٰۃ والسلام مفھمین کی مذکورہ بالا تمام انواع کے جامع نہیں ہوتے تھے ( مفھمین: اللہ سبحانہ وتعاليٰ کے تربیت کئے ہوئے لوگ، جنکی تعداد آٹھ ہیں، تفصیلات کے لئے رجوع کریں، رحمۃ اللہ الواسعہ جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٤٦ )  صرف ایک یا دو فنون کے جامع ہوتے تھے، ایسی ہمہ گیر شخصیت جو مفھمین کی تمام انواع کو جامع ہو، بس ایک ہی شخصیت ہے، اور وہ آپ ﷺ کی ذات والا صفات ہے، حضرت ختمی مرتبت ﷺ "آنچہ خوباں ہمہ دارند تو تنہا داری " کا مصداق ہیں، اس لئے نبیوں میں سب سے اونچا مقام آپ ﷺ کا ہے۔

        دلائل: اس بات کی دلیل کہ خاتم النبین ﷺ  کی بعثت دوہری ہے، یعنی آپ ﷺ کی امت بھی مبعوث ہے، اور وہ یک گونہ آپ ہی کی بعثت ہے، شاہ صاحب قدس سرہ نے اس کی تین دلیلیں بیان کی ہیں، دو آیات کریمہ، اور ایک حدیث شریف، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

       پہلی دلیل: رسول اللہ ﷺ کی نبوت آفاقی اور ابدی ہے، سورۂ سبا آیت نمبر ٢٨ میں ارشاد پاک ہے:

وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ ( اور ہم نے آپ کو تمام لوگوں کے واسطے پیغمبر بناکر بھیجا ہے، خوش خبری سنانے والے، اور ڈرانے والے، لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے )یعنی خواہ عرب ہوں، یا عجم، موجود ہوں، یا آئندہ آنے والے، آپ ﷺ  سب کی طرف مبعوث فرمائے گئے ہیں، ادہر آپ ﷺ  کا بذات خود تمام جہاں میں دعوت کے لئے پہنچنا ایک مشکل امر تھا، اس وجہ سے آپ ﷺ  کی بعثت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، جزیرة العرب کے باشندوں کی طرف آپ ﷺ  کی بعثت بلاواسطہ ہے، اور باقی سارے جہاں کی طرف آپ ﷺ  کی بعثت امیین ( طبقۂ صحابہ ) کے واسطے سے ہے، پس جماعت صحابہ بھی مبعوث ہے، اور یہ بھی من وجہٍ آپ ﷺ  ہی کی بعثت ہے، اس طرح آپ ﷺ  کی بعثت دوہری ہوئی۔

        سورة الجمعہ آیت نمبر ٢تا ٤ تک میں آپ ﷺ  کی امت کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے، ارشاد پاک ہے:

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ * وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ * ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ ۚ وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ ( اللہ وہی ہیں، جنہوں نے امیوں میں، انہیں میں سے ایک عظیم پیغمبر بھیجا، جو انکو اللہ کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے، اور انکو پاک کرتا ہے، اور ان کو کتاب الٰہی اور دانشمندی کی باتیں سکھاتا ہے، اگرچہ وہ لوگ پہلے سے کھلی گمراہی میں تھے، اور ان میں سے دوسروں میں ( بھی آپ ﷺ  کو بھیجا ) جو ہنوز ان میں شامل نہیں ہوئے، اور وہ زبردست، حکمت والے ہیں، یہ فضل خداوندی ہے، جس کو چاھتے ہیں دیتے ہیں، اور اللہ تعالٰی بڑے فضل والے ہیں۔

       اس آیت میں امیوں سے مراد عرب ہیں، جو بعثت نبویﷺ  کے وقت جزیرۃ العرب میں بود و باش رکھتے تھے، جن کی اکثریت حضرت اسماعیل علیہ الاسلام کی اولاد اور ناخواندہ تھی، انکی طرف نبی عربی ﷺ  بلاواسطہ مبعوث فرمائے گئے ہیں، اسی لئے آپ ﷺ  کا لقب النبی الأمی ہے ( سورۂ اعراف آیت نمبر ١٥٧ ) تورات و انجیل میں بھی آپ ﷺ  کا اسی وصف سے تذکرہ کیا گیا ہے، اور الآخرین کا عطف الأ میین پر ہے، اور آخرین سے مراد تمام عجم ( غیر عرب ) ہیں، وہ بھی بایں اعتبارعربوں میں شامل ہیں، کہ تمام انسان ایک ماں باپ کی اولاد ہیں، یھی آیت کی صحیح تفسیر ہے، خود شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے آیت کا ترجمہ یہ کیا ہے "و نیز مبعوث کرد آں پیغامبر را در قومے دیگر از بنی آدم کہ ہنوز نہ پیوستہ اند بامسلماناں " اور حاشیہ میں تحریر فرمایا ہے "یعنی فارس و سائر عجم " پس یہ خیال قطعاً باطل ہے کہ آخرین سے مراد صرف ہندو ہیں، جیسا کہ ''اب بھی نہ جاگے تو '' کے مصنف کا خیال ہے۔

      اور واو کے ذریعہ عطف کرنے کی صورت میں معطوف، معطوف علیہ میں من وجہٍ اتحاد ہوتا ہے، اور من وجہٍ مغایرت، یھاں اتحاد اس اعتبار سے ہے کہ عرب و عجم دونوں ہی آپ ﷺ  کی امت ہیں، اور مغایرت اس اعتبار سے ہے کہ آپ ﷺ  اول کی طرف بلاواسطہ مبعوث ہیں، اور آخرین کی طرف بالواسطہ یعنی بواسطۂ امت اُمّیَہ۔

      اور ذَٰلِكَ فَضْلُ اللَّهِ يُؤْتِيهِ مَنْ يَشَاءُ میں اس طرف اشارہ ہے کہ دولت ایمان تمام عجمیوں کو نصیب نہیں ہوگی، اس لئے ان سے جزیہ قبول کیا جاتا ہے، اور اس کی وجہ فضل کی کمی نہیں ہے وَاللَّهُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِيمِ، بلکہ قابلیت کا فقدان ہے، اور چونکہ اس قسم کا کوئی مضمون امیین کے ساتھ نہیں آیا، اس لئے امام اعظم رحمہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان سے جزیہ قبول نہیں کیا جاتا۔

      پس جب امیوں میں آپ ﷺ کا کام تمام ہوگیا، اور جزیرۃ العرب کے باشندے فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے لگے تو سورة النصر نازل ہوئی، اور آپ ﷺ  کو اطلاع دی گئی کہ آخرت کے لئے تیاری شروع فرمادیں، آپ کا دنیا کا کام تمام ہوگیا ہے، آگے کام صحابہ سنبھال لیں گے۔

      دوسری دلیل: سورۂ آل عمران آیت نمبر ١١٠ میں ارشاد پاک ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ ۗ وَلَوْ آمَنَ أَهْلُ الْكِتَابِ لَكَانَ خَيْرًا لَهُمْ ۚ مِنْهُمُ الْمُؤْمِنُونَ وَأَكْثَرُهُمُ الْفَاسِقُونَ ( تم لوگ بہترین امت ( جماعت ) ہو، جو لوگوں کے فائدے کے لئے وجود میں لائی گئی ہے، تم لوگ نیک کاموں کا حکم دیتے ہو، اور بری باتوں سے روکتے ہو، اور اللہ تعالٰی پر ایمان رکھتے ہو، اور اگر اہل کتاب ایمان لے آتے تو ان کے لئے اچھا ہوتا، ان میں سے بعضے مسلمان ہیں، اور ان میں سے بیشتر کافر ہیں )۔

      اس آیت پاک کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے تین ارشاد مروی ہیں، جو درج ذیل ہیں:
١۔۔۔۔ ابن جریر طبری اور ابن ابی حاتم نے سُدی رحمہ اللہ تعالیٰ ( مفسر قرآن تابعی ) سے اس آیت پاک کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول نقل کیا ہے:
لو شاء اللہ لقال '' انتم '' فکنا کلُنا، ولٰکن قال: '' کنتم '' خاصةً فی اصحاب محمد ﷺ، و من صنع مثل صنیعھم کانوا خیر امة أخرجت للناس ( اگر اللہ تعالٰی چاھتے تو انتم فرماتے، پس اس وقت ہم سب آیت کا مصداق ہوتے، مگر اللہ تعالٰی نے کنتم فرمایا، خاص طور پر صحابۂ کرام ؓ کے بارے میں، اور جو لوگ صحابۂ کرام ؓ جیسے کام کرے، وہ بہترین امت ہونگے، یہ امت لوگوں کی نفع رسانی کے لئے وجود میں لائی گئی ہے )
٢۔۔۔۔ سُدی رحمہ اللہ تعالیٰ ہی سے ابن جریر اور ابن ابی حاتم رحمہما اللہ تعالیٰ نے آیت کی تفسیر میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی نقل کیا ہے:
قال: یکون لاوّلِنا، ولایکون لآخرنا ( فرمایا: یہ آیت ہمارے اگلوں کے لئے یعنی صحابہ ؓ کے لئے ہے، اور ہمارے پچھلوں کے لئے نہیں ہے )
٣۔۔۔۔ ابن جریر حضرت قتادہ رحمہ اللہ تعالیٰ سے روایت کرتے ہیں:
ذُکر لنا أن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ قرأ ھٰذہ الآیة '' کنتم خیر امة أخرجت للناس '' الآیة، ثم قال: یاأیھا الناس! من سرّہٗ أن یکون من تلکم الأمة فلیؤد شرط اللہ منھا ( ہم سے یہ بات بیان کی گئی کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ آیت کنتم خیر امة تلاوت فرمائی، پہر فرمایا کہ جو شخص تم میں سے چاھتا ہے کہ اس امت ( خیر الامم ) میں شامل ہو تو چاھئے کہ وہ اللہ کی شرط پوری کرے، جو خیر الامم کے لئے آیت میں لگائی گئی ہے )
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بالا تینوں ارشادات کنزل العمال جلد نمبر ٢ صفحہ نمبر ٣٧٥۔ ٣٧٦ میں مذکور ہیں، حدیث نمبر ترتیب وار یہ ہیں، ٤٢٨٩۔ ٤٢٩٢۔ ٤٢٩٣۔

       اس کے بعد ایک نحوی قاعدہ جان لیں، تاکہ انتم اور کنتم کا فرق واضح ہوجائے، انتم خیر امة، جملہ اسمیہ خبریہ ہے، جو محض ثبوت و استمرار پر دلالت کرتا ہے، اس میں کسی زمانہ سے کوئی بحث نہیں ہوتی، مثلاﹰ زیدٌ قائمٌ یہ جملہ زید کے لئے قیام کے ثبوت و استمرار پر دلالت کرتا ہے، کوئی خاص زمانہ اس میں ملحوظ نہیں ہے، اور کنتم خیر امة میں ضمیر، کان کا اسم ہے، اور خیر امة مرکب اضافی کان کی خبر ہے، اور نحوی قاعدہ یہ ہے '' کان اپنے دونوں معمولوں ( اسم و خبر ) کے ساتھ، اس کے اسم کے، اس کی خبر کے مضمون کے ساتھ محض اتصاف پر دلالت کرتا ہے ( یعنی کوئی امر زائد اس میں نہیں ہوتا ) ایسے زمانہ میں جو اس کے صیغہ کے مناسب ہو، یا اس کے مصدر کے مشتقات میں سے جملہ میں مذکور صیغہ کے مناسب ہو، اگر صیغہ فعل ماضی ہو، تو زمانہ صرف ماضی ہوگا، بشرطیکہ اس کو غیر ماضی کے لئے خاص کرنے والا کوئی لفظ نہ ہو، اور اگر صیغہ خالص فعل مضارع کا ہو تو اس میں حال و استقبال دونوں زمانوں کی صلاحیت ہوگی، بشرطیکہ کوئی حرف جیسے لن، لم وغیرہ اس کو کسی ایک زمانے کے ساتھ خاص نہ کردیں، یا اس کو ماضی کے لئے نہ کردیں،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مثلاﹰ: کان الطفل جاریا، اس وقت کہیں گے جب بچہ زمانۂ ماضی میں چلنے لگا ہو، اور یکون الطفل جاریا اس وقت کہیں گے جب چلنا زمانۂ حال میں، یا مستقبل میں متحقق ہو ''( النحو الوافی جلد نمبر ١ صفحہ نمبر ٥٤٨ )۔

      پس اگر آیت کریمہ میں انتم خیرُ امةٍ ہوتا، تو خیریت کا ثبوت دوام و استمرار کے ساتھ ہوتا، اور پوری امت اس کا مصداق ہوتی، مگر جب آیت میں کنتم خیر امةٍ ہے تو نزول آیت کے وقت زمانۂ ماضی میں جو امت وجود پذیر ہوچکی ہے، اس کو خیریت کے ساتھ متصف کیا گیا ہے، پس صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین ہی آیت کا مصداق اولیں ہیں، کیونکہ نزول آیت کے وقت انہیں کا تحقق ہوچکا تھا، باقی امت ابھی تک وجود پذیر نہیں ہوئی تھی، البتہ باقی امت کے وہ افراد جو آیت کی شرط پوری کریں۔۔۔۔۔۔ آیت کا مصداق ہوں گے۔

       اب آیت کریمہ کا مطلب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے تینوں ارشادات کی روشنی میں یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جماعت صحابہ کو یعنی امیین کو جو آنحضورﷺ  کی بلاواسطہ امت ہیں، مخاطب فرماکر ارشاد فرمایا، کہ تم علم الٰہی میں بہترین امت تھے، اس لئے تم کو لوگوں کی نفع رسانی کے لئے وجود میں لایا گیا ہے، یعنی  دعوت اسلام کو لے کر ساری دنیا میں تمہیں پہنچا ہے، تمہیں چاھئے کہ لوگوں کو بھلائی کی باتوں کا حکم دو، برائی کی باتوں سے روکو، اور لوگوں کو اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی دعوے دو، اس خیر امت میں اہل کتاب ( یہود ) شامل نہیں ہیں، اگرچہ وہ مدینہ منورہ میں سکونت پذیر تھے، کیونکہ ان میں سے معدودے چند کے علاوہ کوئی ایمان نہیں لایا، اہل کتاب کا لفظ اگرچہ عام ہے، مگر آیت میں سیاق کے قرینہ سے خاص یہود مراد ہیں۔

      اور جس طرح نبی کے لئے عصمت ضروری ہے، کیونکہ اس کے بغیر نبی کے پہنچائے ہوئے دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اسی طرح جماعت صحابہ کے لئے حفاظت ضروری ہے، کیونکہ وہ خیر الامم ہیں، اور وہ من وجہٍ مبعوث الی الآخرین ہیں، پس عدالت و حفاظت کے بغیر ان کے پہنچائے ہوئے دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا، اور یہ حکم کلی کے ہر ہر فرد کا ہے، ارشاد نبویﷺ  ہے '' میرے صحابہ آسمان کے ستاروں کی مثال ہیں، ان میں سے جس کی بھی تم پیروی کروگے، منزل مقصود تک پہنچ جاؤگے '' ( یہ حدیث چھ صحابہ سے مروی ہے، اور حسن لغیرہ ہے، تفصیل کے لئے دیکھیں، دین کی بنیادیں اور تقلید کی ضرورت صفحہ نمبر ٨٩ تا ٩٥ )۔

     صحابۂ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کی اسی عدالت و حفاظت کا نام '' معیار حق '' ہونا ہے، جن لوگوں کے نزدیک اللہ و رسول کے علاوہ کسی کی ذہنی غلامی جائز نہیں ہے، وہ سخت گمراہی میں ہیں، وہ سوچیں، ان تک دین صحابۂ کرام ؓ ہی کے توسط سے پہنچا ہے، اگر وہی قابل اعتبار اور لائق تقلید نہیں، تو پہر آپ کے دین کی صحت کی کیا ضمانت ہے۔

       غرض صحابہ کا طبقہ امت کا ایک ایسا طبقہ ہے، جو من حیث الطبقة یعنی پوری کی پوری جماعت دین کے معاملہ میں مأمون و محفوظ ہے، اور وہ ہر اعتقادی گمراہی یا عملی خرابی سے پاک ہے، کیونکہ وہ بھی مبعوث ہے۔

      تیسری دلیل: بخاری شریف میں روایت ہے، ایک اعرابی نے مسجد نبوی میں پیشاب کرنا شروع کردیا، لوگوں نے اس کو لے لیا، آپ ﷺ  نے صحابہ سے فرمایا: اسے چھوڑو، اور اس کے پیشاب پر پانی کی ایک بالٹی ڈال دو، اور فرمایا: فانما بُعثتم میسرین، و لم تُبعثوا معسّرین ( کیونکہ تم آسانی کرنے والے بناکر ہی مبعوث کئے گئے ہو، تنگی کرنے والے بناکر مبعوث نہیں کئے گئے )( بخاری شریف کتاب الوضوء، حدیث نمبر ٢٢٠ مشکوٰۃ باب تطہیر النجاسات حدیث نمبر ٤٩١ ) یہ حدیث شریف صحابۂ کرام کی بعثت میں بالکل صریح اور دو ٹوک ہے، عُلم من ھٰذا الحدیث أن أمتہ ﷺ  أیضاً مبعوثةٌ الی الناس، فثبت لہ ﷺ بعثتان البتة ( عبیداللہ سندھی )۔

     فائدہ: آنحضورﷺ  افراد انبیاء کے خاتم ( آخری فرد ) ہیں، اس وجہ سے آپ ﷺ  کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا، رہی امت کی بعثت تو وہ صرف پیغام رسانی میں ہے، یعنی یہ بات کمالات نبوت میں ہے، اور کمالات نبوت باقی ہیں، ختم نہیں ہوئے، صرف نبوت ختم ہوئی ہے، پس امت کے کسی بھی فرد کو نبی نہیں کہہ سکتے۔

                                 ختم شد

مکمل تحریر >>